روزنامہ پاکستان لاہور ۷ مئی ۱۹۹۹ء کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شائق عثمانی کے اس فیصلہ کو قرآنی احکام کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جس میں وراثت میں لڑکی اور لڑکے کے حصہ کو برابر قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں قرآنی حکم میں اجتہاد کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے دستور کی دفعہ ۲۰۹(۵)(۶) کے تحت صدر مملکت کو ریفرنس پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ان سے استدعا کی گئی ہے کہ جسٹس مذکور کے خلاف سپریم جوڈیشیل کونسل میں کاروائی عمل میں لائی جائے۔
خبر کے مطابق جسٹس شائق عثمانی نے ۳ مارچ ۱۹۹۹ء کو ایک مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں لڑکی کو باپ کی وراثت میں لڑکے سے نصف حصہ کی جو مقدار بیان کی گئی ہے وہ لڑکی کے کم از کم حصہ کا تعین ہے۔ اور یہ کہنا کہ یہ قانون ناقابلِ تبدیل اور ہمیشہ رہنے والا ہے، غلط تشریح کا نتیجہ ہے۔ بلکہ یہ دعوٰی اصل میں مرد پرستی کے اس مزاج کا نتیجہ ہے جو ہمارے مزاج میں سرایت کر چکا ہے۔ اس لیے ایک اسلامی مملکت کے لیے ممکن ہے کہ وہ اس میں ترمیم کر کے عورت کا حصہ بڑھا دے، جس طرح ترکی میں لڑکوں اور لڑکیوں کو وراثت میں برابر حصے کا حقدار تسلیم کیا گیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے خاندانی قوانین یعنی نکاح، طلاق اور وراثت سے متعلقہ احکام میں رد و بدل پر ایک عرصہ سے زور دیا جا رہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کے مروجہ بین الاقوامی قوانین اسلام کے ان احکام سے مطابقت نہیں رکھتے، اور مسلم معاشرہ کے خاندانی نظام کو مغربی معاشرہ کے معیار پر لانے میں یہ اسلامی قوانین رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس لیے مسلم حکومتوں پر دباؤ ہے کہ وہ قرآنی احکام پر اصرار کرنے کی بجائے مروجہ بین الاقوامی قوانین کو اپنے اپنے ملک میں نافذ کریں، اور قرآن و سنت کے جو احکام اور ضابطے ان بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں ان میں رد و بدل کر لیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں سب سے پہلی پیشرفت صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں عائلی قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہوئی تھی، اور علماء کرام نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے عائلی قوانین کی متعدد دفعات کو قرآن و سنت کے صریحاً منافی قرار دیا تھا مگر ان کا یہ احتجاج صدا بصحرا ثابت ہوا، اور اب اسی کام کے باقی حصہ کی تکمیل کے لیے مسلسل ورک ہو رہا ہے۔
- گزشتہ سال سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں قائم خواتین حقوق کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں ان میں بھی نکاح، طلاق اور وراثت کے اسلامی قوانین کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنانے کے لیے اسی قسم کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔
- اور اس کے بعد ہائی کورٹس کے متعدد فیصلے اس سلسلہ میں سامنے آ چکے ہیں جن میں قرآن و سنت کے صریح احکام کو نظرانداز کرتے ہوئے اسی مروجہ بین الاقوامی معیار کو سامنے رکھا گیا ہے۔
- جسٹس شائق عثمانی کے مذکورہ فیصلے کا پس منظر بھی یہی ہے۔
اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کا احتجاج بالکل بجا ہے مگر صرف اتنی بات کافی نہیں ہے بلکہ دینی جماعتوں اور علمی مراکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں اور اسلامی احکام و قوانین کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔