حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف تنقید پر پابندی

   
۱۲ فروری ۲۰۰۲ء

۱۰ فروری ۲۰۰۲ء کو لاہور کے ایک روزنامہ نے ریاض سے ’’آن لائن‘‘ کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے عازمین حج کو انتباہ کیا ہے کہ ادائیگی حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف تنقید کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ مکہ کے گورنر شہزادہ عبدالمجید بن عبد العزیز نے عربی اخبار ’’عکاظ‘‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ حج امریکہ کے خلاف تنقید کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ ذی الحجہ کا چاند طلوع ہوگیا ہے، پاکستان میں اس کے مطابق ۲۳ فروری ہفتہ کو عید الاضحیٰ منائی جا رہی ہے جبکہ سعودی عرب میں چاند کا حساب ایک دن قبل ہونے کی وجہ سے ۲۱ فروری جمعرات کو حج ہوگا جس کے لیے دنیا بھر سے لاکھوں حاجی حجاز مقدس پہنچ چکے ہیں اور ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

حج کی فرضیت اور اجتماعیت

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے اور ہر اس مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جو اپنے گھر کے معمول کے اخراجات سے زائد اتنی مالی استطاعت رکھتا ہو کہ حج کے اخراجات برداشت کر سکے۔ ؔ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے جبکہ نفلی حج جتنی دفعہ چاہے ادا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض فقہاء کرام نفلی حج پر رقم صرف کرنے کی بجائے اسے سوسائٹی کے مستحق اور نادار لوگوں پر خرچ کرنے کو زیادہ باعث ثواب قرار دیتے ہیں۔

حج مسلمانوں کا سالانہ اجتماع ہے جس میں دنیا کے ہر خطہ، زبان، نسل، اور قوم کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور اس سے ہر سال اسلام کی عالمگیریت (Globalization) کا اظہار ہوتا ہے۔ آج کا دور گلوبلائزیشن کا دور کہلاتا ہے جس میں دنیا کو ایک ’’گلوبل ویلیج‘‘ بنانے کی بات ہو رہی ہے اور اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک باقاعدہ ایجنڈا مرتب کر کے اس گلوبلائزیشن کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں رکھنے کے جتن کر رہے ہیں۔ لیکن گلوبلائزیشن کا اعلان اس سے بہت قبل ہو چکا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں گلوبلائزیشن کا سب سے پہلا اجتماع ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ہوا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ صحابہ کرامؓ نے حج ادا کیا تھا۔ مختلف اقوام و اوطان اور رنگ و نسل کے لوگوں کے اس بین الاقوامی اجتماع میں کھڑے ہو کر آنحضرتؐ نے انسانی سوسائٹی میں کالے و گورے اور عربی و عجمی کے امتیازات کو ختم کرنے کا اعلان کر کے عالمگیریت کے فطری اور دائمی اصولوں سے نسل انسانی کو متعارف کرایا تھا۔ تب سے یہ عالمی اجتماع اسی فضا میں ہو رہا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شریک ہوتے ہیں اور کئی روز تک اکٹھے خیموں میں رہتے ہیں۔ ان کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں، ثقافت ایک دوسرے سے جداگانہ ہوتی ہے، رنگ کا فرق ہوتا ہے، قوم اور وطن مختلف ہوتے ہیں، عادات و اخلاق میں بھی امتیاز ہوتا ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ آپس میں امن اور محبت سے رہتے ہیں، ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتیں و عادتیں برداشت کرتے ہیں، اور محبت و اعتماد کی فضا میں رخصت ہو جاتے ہیں۔

یہ دنیا کا واحد اجتماع ہے جو اتنی زیادہ نسلوں، قوموں، زبانوں، اور علاقوں کے تضادات کے باوجود مثالی طور پر پرامن ہوتا ہے۔ چوری، جھگڑا، فساد، لڑائی، بد امنی وغیرہ کے واقعات اکا دکا ہوتے ہوں تو اس کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس طرح کا اجتماع کہیں اور ہو تو نظم و نسق کے بیسیوں مسائل کھڑے ہوجائیں، ہزاروں واقعات کو کنٹرول کرنا پڑے، اور بہت بڑی اور منظم فورس اس کے لیے تیار کرنی پڑے۔ لیکن یہاں اس کے بغیر ہی امن رہتا ہے اور باہمی محبت و اعتماد کی فضا موجود رہتی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ باہمی مسائل و معاملات کی بجائے سب کی توجہ کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، اللہ کے گھر کی حاضری اور اس کی رضا کا حصول مقصد زندگی بن جاتا ہے۔ جبکہ باہمی مسائل و معاملات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں کہ بڑے مقصد کی خاطر انہیں نظر انداز کرنے کا مزاج بن جاتا ہے اور ایثار و قربانی کا جذبہ غالب رہتا ہے۔

حج ایک ’’ریہرسل‘‘ بھی ہے جس کے ذریعے انسانی سوسائٹی کو ہر سال یہ سبق دیا جاتا ہے اور اس کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے کہ اگر زندگی میں باہمی معاملات و امور ہی کو اہداف اور مقاصد قرار دے لو گے تو جھگڑے پیدا ہوں گے، فساد کھڑے ہوں گے، اور تنازعات کا دائرہ پھیلتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر باہمی معاملات اور امور و مفادات کو ثانوی حیثیت دے کر توجہ کسی اور طرف مبذول کرلو گے اور مقصد حیات کسی اور کو بنا لو گے تو ان تنازعات سے جان چھوٹ سکتی ہے، مفادات میں قابل قبول ترجیحات قائم ہو سکتی ہیں، معاملات میں برداشت اور حوصلہ کا عنصر شامل ہو سکتا ہے، او رامن و سکون کا ماحول میسر آسکتا ہے۔ یہ ’’اور‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کون ہو سکتا ہے جس نے زندگی کی نعمت بخشی اور جو اس زندگی کے لیے اسباب و وسائل بھی فراوانی سے فراہم کر رہا ہے۔

حج کا عالمی اجتماع اپنے امن اور باہمی محبت و اعتماد کی فضا کے حوالہ سے ایک اور سبق بھی دیتا ہے اور ہر سال اس سبق کو دہراتا ہے کہ انسان کو صحیح رخ پر رکھنے والی چیز صرف ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ اگر عقیدہ اور یقین کی قوت انسان کے اندر کارفرما ہے تو اس کی سمت صحیح رہے گی اور وہ اس یقین کے مطابق چلتا رہے گا۔ قانون اور ضابطے خارجی معاون ہیں جن کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں لیکن اصل چیز ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ عقیدہ کی داخلی قوت نہ ہو تو ضابطہ و قانون کے خارجی اسباب صرف وقتی طور پر کام کرتے ہیں، عارضی اثرات کے حامل ہوتے ہیں، اور اسی وقت تک اثر انداز ہوتے ہیں جب تک ان سے بچنے کا کوئی راستہ انسان کو میسر نہ آجائے۔ حج کے اتنے بڑے اجتماع کو اگر صرف قانون کے زور سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے تو اس میں کسی کو کامیابی نہیں ہوگی۔ یہ صرف عقیدہ اور ایمان کی قوت ہے جو لاکھوں انسانوں کو کنٹرول میں رکھتی ہے اور قانون کو بھی یہ قوت فراہم کرتی ہے کہ وہ موثر طریقہ سے اثر انداز ہو اور اپنا کام سر انجام دے۔ یہ پوری نسل انسانی کے لیے زندہ اور مسلسل سبق ہے کہ اگر عقیدہ اور توحید کی اسی قوت کو پوری دنیا میں اپنا لیا جائے اور باہمی معاملات و مفادات و امور کو عقیدہ کے تابع حیثیت دے دی جائے تو وہی امن و سکون اور اعتماد و محبت کی فضا پوری نسل انسانی کو عالمی سطح پر میسر آسکتی ہے جس کا مظاہرہ حج کے چند دنوں بلکہ ہفتوں میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، منیٰ، اور عرفات کی فضا میں ہر سال ہوتا ہے اور کھلی آنکھوں کے ساتھ ساری دنیا اس کا مشاہدہ کرتی ہے۔

کیا حج کے موقع پر اجتماعی مسائل پر گفتگو ممنوع ہے؟

ہم نے گورنر مکہ کے اس بیان سے بات شروع کی تھی کہ حج کے اجتماع کو امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے گا اور اس اجتماع میں امریکہ کے خلاف تنقید کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہمارے خیال میں یہ بات حج کی اجتماعیت اور مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے۔ جناب رسالت مآبؐ نے اجتماعی احکام کے لیے اور عالمی تہذیب کے خطوط اجاگر کرنے کے لیے حجۃ الوداع کے اجتماع کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی اور تمام تر اہم عالمی اعلانات حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرما کر یہ تعلیم دی تھی کہ حج صرف مذہبی رسم اور ظاہری عبادت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہے اور ان کے ملی تشخص کی علامت ہے۔ خطبہ حجۃ الوادع کا ایک ایک جملہ مسلمانوں کے ملی تشخص اور احکام و ضوابط کی نشاندہی کرتا ہے اور جناب رسول اللہؐ کے بعد حضرات خلفائے راشدین کا بھی معمول تھا کہ اہم اعلانات حج کے موقع پر کیا کرتے تھے۔ مختلف علاقوں کے حکام کو پیغام بھیج کر بلایا جاتا تھا اور لوگوں سے ان کی شکایات و مسائل سنے جاتے تھے جن پر داد رسی کا اہتمام ہوتا تھا۔ اس طرح حج کو مسلمانوں کی سالانہ عالمی کانفرنس کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ امریکہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ شکایات امریکہ سے ہیں۔ اس لیے اگر مسلمانان عالم حج کے اجتماع میں اس مسئلہ پر آپس میں تبادلۂ خیالات نہیں کریں گے تو اور کہاں کریں گے؟ اور اس موقع پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کریں گے تو انہیں اس کا اور کہاں موقع ملے گا؟ ہم تو توقع کر رہے تھے کہ سعودی حکومت حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کو بلائے گی اور مقدس فضا میں سب مل بیٹھ کر امریکہ کی چیرہ دستیوں سے عالم اسلام کو نجات دلانے کے لیے صلاح مشورہ کریں گے۔ مگر گورنر مکہ عام مسلمانوں کو بھی روک رہے ہیں کہ وہ حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکیں گے، اس پر اظہار افسوس کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟

سعودی عرب کی محترم حکومت کو اس حوالہ سے صرف ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ بخاری شریف کے ’’حجۃ الوداع‘‘ کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے ایک روایت منقول ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے امت کو اس سے خبردار رہنے اور اس کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس لیے اگر حجۃ الوداع کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ دجال کے فتنہ کا ذکر کر سکتے ہیں تو آج حج کے اجتماع میں امریکہ کی بات کرنے اور اس کی اسلام دشمنی کا تذکرہ کرنے میں آخر کیا حرج ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter