جامعۃ الرشید ایک بار پھر سبقت لے گیا ہے کہ اس نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے تحقیق اور مکالمہ کی اہم ملی و قومی ضرورت کے لیے قومی سطح پر ایک نیا فورم تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے اور ’’نیشنل سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ڈائیلاگ‘‘ کے عنوان سے ’’تھنک ٹینک‘‘ کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ۳؍ اپریل کو اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں اس فکری و علمی فورم کا افتتاحی پروگرام علمی و فکری دنیا میں تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا جس نے مستقبل کے لیے امید کی نئی کرن روشن کی ہے اور تحقیق و جستجو کے متلاشی ارباب علم و فکر کے لیے مطالعہ و تحقیق اور اظہار و مکالمہ کا ایک نیا دَر وَا کر دیا ہے۔
مکالمہ و تحقیق ہماری قدیم علمی روایت ہے جس کی جھلکیاں تاریخ میں جا بجا بکھری پڑی ہیں اور جس کے آثار قیامت تک ارباب فکر و نظر کی راہ نمائی کا سامان رہیں گے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی وہ تاریخی علمی و فقہی مجلس اسی تحقیق و مکالمہ کی اساس تھی جس میں بیسیوں فقہاء کرام اور مختلف شعبوں کے ماہرین مل بیٹھ کر مسائل کی نشاندہی کرتے تھے، ان کی تحقیق و تجزیہ کے مراحل سے گزرتے تھے، بحث و مکالمہ کا سلسلہ ہوتا تھا اور اجتماعی مشاورت کے ساتھ مسئلہ کا حل تجویز کرتے تھے۔ اختلاف ہوتا تھا، مختلف نقطہ ہائے نظر کا اظہار ہوتا تھا، نقد و تبصرہ ہوتا تھا اور ان مسائل کا بھی انفرادی آراء کے طور پر فقہی ریکارڈ میں اندراج کیا جاتا تھا جن پر اتفاق رائے نہیں ہو پاتا تھا۔
عقائد و مذہب کی دنیا میں ہم نے اس تحقیق و مکالمہ کا ایک منظر متحدہ ہندوستان میں ’’میلہ خدا شناسی‘‘ کی صورت میں دیکھا جو ہر سال پبلک اجتماع کے طور پر کئی روز جاری رہتا تھا اور مختلف مذاہب کے راہ نما وہاں اپنے عقائد اور مذہب کی ترجمانی کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا اسی میلہ خدا شناسی میں اسلام کی حقانیت پر بیان کئی بار شائع ہو چکا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا اجتماع اور قادیانیوں کے بارے میں اجتماعی موقف کا باہمی مشاورت سے تعین اسی مکالمہ کا تسلسل تھا۔ اور پاکستان کے دستوری ڈھانچے کی تشکیل کے لیے مختلف مکاتب فکر کے ۳۱ علماء کرام کی طرف سے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی تدوین بھی اسی تحقیق و مکالمہ کی ایک جامع صورت تھی، جبکہ سرکاری سطح پر تعلیمات اسلامیہ بورڈ، اسلامی مشاورتی کونسل اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل میں مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کے ساتھ ساتھ عصری قانون کے ماہرین اور مختلف شعبوں کے بارے میں تجربہ و مہارت رکھنے والے حضرات کا اجتماع اسی تسلسل کا حصہ ہے۔
ایک عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ جس طرح پاکستان کے دستور کی نظریاتی بنیادیں طے کرنے کے لیے ۳۱ علماء کرام کا باہمی مشاورت اور بحث و مکالمہ کا اہتمام کیا گیا تھا، اسی طرح ملک و قوم کو درپیش مسائل پر بحث و مباحثہ اور مشاورت کی کوئی صورت پرائیویٹ سطح پر ضرور ہونی چاہیے۔ حکومتی سطح پر وقتاً فوقتاً ایسی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جن کی افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے، لیکن حکومتی دائروں سے ہٹ کر پرائیویٹ طور پر ایسی علمی و تحقیقی مجالس کا اہتمام اور اس کے لیے کسی باقاعدہ نظم کا قیام بھی ایک اہم ملی و قومی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں ’’نیشنل سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ڈائیلاگ‘‘ کا قیام اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔
’’تھنک ٹینک‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں راقم الحروف بھی حاضر تھا اور کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل کی مگر زیادہ وقت مختلف راہ نماؤں اور مفکرین کے خیالات سننے اور آرا و افکار کے تنوع سے لطف اندوز ہونے میں گزرا اور اس پر جو خوشی ہوئی، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان اس فورم کے چیئرمین اور سید عدنان کاکاخیل سیکرٹری جنرل ہیں جو فورم تشکیل دینے والوں کی سنجیدگی اور عزم کی نشاندہی کرتے ہیں، جبکہ افتتاحی نشست کی صدارت کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا انتخاب اور ان کی تشریف آوری اس ’’تھنک ٹینک‘‘ کی علمی و فکری سطح اور ثقاہت کی علامت ہے۔ اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور دوسرے علماء کرام کی موجودگی و خطاب اس فورم کے دائرہ کار کی وسعت کا غماز ہے۔
اس نشست میں ’’نیشنل سنٹر‘‘ کے مقاصد و اہداف کا ذکر کیا گیا اور عزائم کا اظہار کیا گیا، مگر میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپ وہ مکالمہ تھا جو کسی ایجنڈے کے بغیر ہی میڈیا کے موضوع پر پہلی نشست میں ہوگیا۔ مولانا مفتی منیب الرحمن نے میڈیا سے دینی حلقوں کی شکایات کا ذکر کیا جس پر جناب حامد میر اور ڈاکٹر شاہد مسعود نے میڈیا کے دفاع کی پوزیشن اختیار کی، مگر ضیاء شاہد صاحب نے اپنی گرما گرم گفتگو سے اس کو ایک نیا رخ دے دیا۔ یہ نشست مکالمہ کے لیے نہیں تھی مگر مکالمہ ہوگیا اور بہت دلچسپ اور خوب ہوا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے آزادانہ بحث و مکالمہ کی ضرورت کی سطح کیا ہے اور اربابِ فکر و دانش اس کے لیے کس قدر بے تاب ہیں؟
اگر اس افتتاحی نشست میں شریک کوئی دوست میڈیا کے کردار، اس سے عوامی حلقوں کی شکایات، میڈیا کی مجبوریوں، عوامی نفسیات، میڈیا کی پشت پر کام کرنے والے عوامل و محرکات اور میڈیا کے کردار میں اصلاح کے لیے تجاویز پر مشتمل اس گفتگو کو مرتب صورت دے سکیں تو یہ ہمارے قارئین کے لیے ایک بڑا فکری تحفہ ہوگا اور مفتی منیب الرحمن، حامد میر، ڈاکٹر شاہد مسعود، اور ضیاء شاہد کی گفتگو عوامی حلقوں کے لیے بہت چشم کشا ہوگی۔
بہرحال اس کامیاب پیش رفت پر جامعۃ الرشید اور تمام متعلقہ بزرگوں اور دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک عزائم میں اس فورم کو کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔