عید الاضحٰی کی تعطیلات میں ہفتہ عشرہ کے لیے برطانیہ جانے کا موقع ملا۔ شعبان اور رمضان المبارک کے دوران برطانیہ اور امریکہ جانے کا معمول ہے لیکن اس سال امریکہ کا ویزا تاخیر سے ملنے کی وجہ سے یہ سفر نہیں کر سکا تھا اور اس کی برطانیہ کی حد تھوڑی سی ’’قضا‘‘ عید الاضحٰی کے موقع پر ہوگئی۔ ۲ جنوری کو گلف ایئر کے ذریعے سے بحرین اور پھر لندن پہنچا اور واپسی پر گلف ایئر کے ذریعے ہی ۱۰ جنوری کو لندن سے روانہ ہو کر قطر ایئرپورٹ پر چند گھنٹے رکنے کے بعد ۱۱ جنوری کی شام اسلام آباد پہنچ گیا۔ اس دوران لندن، برمنگھم، نوٹنگھم، لیسٹر، آکسفورڈ اور والسال جانے کا اتفاق ہوا اور بیسیوں احباب سے ملاقات کے علاوہ متعدد دینی اجتماعات میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔
لندن میں ساؤتھال کی ابوبکر مسجد، وائٹ چیپل کے ابراہیم کمیونٹی سنٹر، ایسٹ ہیم میں الحاج عبد الرحمان باوا کے ختم نبوت سینٹر اور ویسٹ ہیم میں تبلیغی جماعت لندن کے مرکز میں حاضری دی۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری ان دنوں بھارت کے سفر پر تھے اور فورم کے دیگر رہنما مفتی برکت اللہ اور مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری بھی بیرونی سفر پر تھے اس لیے فورم کا کوئی اجلاس نہ ہو سکا البتہ ابراہیم کمیونٹی کالج کے احباب نے ’’تحفظ حقوق نسواں اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے حوالے سے ایک فکری نشست کا اہتمام کر لیا تھا جس میں اس موضوع پر پاکستان کے تناظر اور عالمی تناظر دونوں کے بارے میں کچھ گزارشات علماء کرام کی خدمت میں پیش کیں۔ ختم نبوت کے محاذ پر الحاج عبد الرحمان باوا اور ان کے فرزند مولانا سہیل باوا کی مسلسل جدوجہد اور پیشرفت دیکھ کر خوشی ہوئی۔ باپ بیٹا دونوں شب و روز اسی مشن میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے کام کے نتائج بھی بحمد اللہ حاصل کرتے ہیں۔
لندن میں ہی ایک دوست کے ہاں کمپیوٹر پر صدام حسین کو پھانسی دیے جانے کا منظر دیکھا، اخبارات میں اس سے قبل پڑھ رکھا تھا کہ عراق کے سابق مرد آہن نے حوصلہ اور وقار کے ساتھ موت کا سامنا کیا ہے۔ ویڈیو پر یہ منظر دیکھ کر وہ ساری خبریں ذہن میں پھر سے تازہ ہوگئیں، دل گواہی دیتا ہے کہ صدام حسین نے جس جرأت کے ساتھ زندگی کے آخری برسوں میں عالمی استعمار کا سامنا کیا ہے اور پھر جس حوصلہ اور وقار کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے موت سے آنکھیں چار کی ہیں وہ ان کی سابقہ زندگی کا یقیناً کفارہ ہوگیا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اعتبار خاتمے کا ہوتا ہے، اس ارشاد گرامی کی روشنی میں دیکھا جائے تو صدام حسین کا خاتمہ اسلامی نقطۂ نظر سے بہت اچھا ہوا ہے۔ عراق کے سابق صدر نے اپنی سیاسی زندگی اور اقتدار کا آغاز بعث پارٹی کے فورم سے کیا تھا جس کی بنیاد مذہب بیزاری اور عرب قومیت پر تھی لیکن آخری دنوں میں ان کے ہاتھوں میں قرآن کریم تھا اور ان کی زبان پر کلمۂ شہادت تھا۔ صدام حسین نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر تختہ دار پر قدم رکھا اور کلمۂ شہادت دوسری دفعہ پڑھتے ہوئے لفظ ’’محمد‘‘ ان کی زبان پر تھا کہ ایک جھٹکے نے ان کی زندگی کا رشتہ توڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہوں نے زندگی کے آخری لمحات میں عراق کی سلامتی اور فلسطین کے حوالے سے جس خواہش اور عزم کا اظہار کیا اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
آکسفورڈ میں مولانا محمد اکرم ندوی کے ہاں ایک رات قیام کیا، ان کی تازہ علمی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کی، آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں حاضری دی، سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی سے ملاقات کی اور متعدد امور پر ان سے بات چیت ہوئی جبکہ آکسفورڈ اسٹینلے روڈ کی مدینہ مسجد میں حسب معمول عشاء کی نماز کے بعد مختصر بیان ہوا۔ اس بار موضوع گفتگو مغرب کی روشن خیالی تھا۔ میں نے گزارش کی کہ مغرب کی روشن خیالی انقلاب فرانس سے شروع ہوتی ہے اور اس سے پہلے کا دور تاریکی کا دور کہلاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں روشنی کا دور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شروع ہوتا ہے اور اس سے پہلے کا دور جاہلیت کا دور کہلاتا ہے۔ اس طرح ہم نے جاہلیت کے دور سے علم کے دور اور تاریکی کے دور سے روشنی کے دور کی طرف سفر مغرب سے گیارہ سو برس پہلے شروع کر دیا تھا اور مغرب کو جہالت اور تاریکی سے نکلنے کا خیال ہم سے ایک ہزار برس بعد آیا۔ لیکن ہماری روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی میں ایک جوہری فرق ہے کہ مغرب نے آسمانی تعلیمات، چرچ، بائبل اور وحیٔ الٰہی سے انحراف کر کے اس بغاوت کو روشن خیالی قرار دے رکھا ہے اور سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی نظام اس کے نزدیک روشنی کی علامت قرار پایا ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اس لیے کہ جناب رسول اللہ نے سوسائٹی کو انسانی خواہشات کی پیروی کے دائرے سے نکال کر آسمانی تعلیمات اور وحیٔ الٰہی کی طرف متوجہ کیا اور انبیاء کرامؑ کے ارشادات و ہدایات کی پیروی کو روشنی اور علم قرار دیا۔ اس لیے جو بات مغرب کے نزدیک روشنی کہلاتی ہے ہمارے نزدیک وہ تاریکی اور جہالت ہے، اور ہم جس چیز کو علم اور روشنی کی علامت سمجھتے ہیں وہ مغرب کے نزدیک جہالت اور تاریکی ہے۔ مغرب آسمانی تعلیمات کی پیروی کو جہالت اور سوسائٹی کی خواہشات کی اتباع کو روشنی تصور کرتا ہے جبکہ ہم سوسائٹی کی خواہشات کی پیروی کو جہالت اور آسمانی تعلیمات کی اتباع کو علم اور روشنی سمجھتے ہیں۔ البتہ ہمارے ہاں بہت سے دانشوروں نے اس جوہری فرق کو سمجھے بغیر مغرب کی روشنی خیالی کا دائرہ مسلم معاشرے تک وسیع کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دے رکھا ہے اور وہ اپنی ساری صلاحیتیں اس کے لیے صرف کر رہے ہیں۔ میں نے اس گفتگو میں علماء کرام اور اہل دانش سے گزارش کی کہ وہ فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی عالمی کشمکش کے اصل تناظر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور معروضی حقائق کا ادراک حاصل کر کے اسلام کے موقف اور پوزیشن کی صحیح طور پر وضاحت کا فریضہ ادا کریں۔
نوٹنگھم میں جامعہ الہدٰی کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی کے ساتھ جامعہ کے تعلیمی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور جامعہ کے سالِ آخر کی جو طالبات بخاری شریف پڑھ رہی ہے انہیں علمِ حدیث کی آج کے عالمی تناظر میں اہمیت و ضرورت اور صحیح بخاری شریف کی امتیازی خصوصیات پر لیکچر دیا۔ مولانا رضاء الحق کا اصرار تھا کہ میں کچھ دن رہوں اور طالبات کو بخاری شریف کا کوئی باب مستقل طور پر پڑھاؤں۔ یہ میرے لیے مشکل بات تھی اس لیے وعدہ کر کے ان سے اجازت لی کہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شش ماہی امتحان کے موقع پر تعطیلات کے دوران حاضری ہوئی تو طالبات کو اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر بخاری شریف کی روشنی میں چند روز میں پڑھاؤں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
گزشتہ جمعہ کی نماز مدنی مسجد نوٹنگھم میں ادا کی اور جمعہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔ جبکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست صفدر مرزا نے، جو یہاں مسلم کمیونٹی کے مسائل و معاملات میں خاصے سرگرم رہتے ہیں، نوٹنگھم کی سٹی پولیس کے چیف مارکس بیل کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کا نظم بنایا۔ صفدر مرزا نے خدا جانے کس انداز سے ان سے میرا تعارف کرایا کہ وہ ملاقات کے لیے خود قیام گاہ جامعہ الہدٰی میں تشریف لے آئے، تقریباً اڑھائی گھنٹے ہمارے درمیان مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی جس میں صفدر مرزا اور مولانا رضاء الحق سیاکھوی بھی شریک تھے۔ زیادہ تر گفتگو نوجوان مسلمانوں کے جذبات اور برطانوی معاشرے میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر کنٹرول کے سلسلہ میں ہوئی۔
- برطانوی انتظامیہ اس بات پر بہت پریشان ہے کہ برطانیہ کی مسلم کمیونٹی کے نوجوان عنصر کے جذبات میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ میں نے مارکس بیل سے گزارش کی کہ آپ اس مسئلہ کو اس تناظر میں دیکھیں کہ جس طرح اسرائیل میں یہودیوں کے ساتھ کوئی معاملہ ہوتا ہے تو نیویارک اور لندن کے یہودیوں میں اس کا ردعمل سامنے آتا ہے جو فطری بات ہے۔ اسی طرح دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوتا ہے جسے مسلمان ظلم اور زیادتی تصور کرتے ہیں تو اس کا ردعمل نوٹنگھم کے مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں میں پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ اور میڈیا کے اس دور میں جبکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والے واقعہ کی خبر اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ چند منٹوں میں ہر جگہ پہنچ جاتی ہے، اس فطری ردعمل کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا صریحاً زیادتی کی بات ہوگی کہ برطانیہ کے مسلمان دنیا کی کسی دوسری جگہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ردعمل کا شکار نہ ہوں یا اس ردعمل کا اظہار نہ کریں۔ البتہ یہ کہنا قرین قیاس ہے اور ہم اپنے یہاں کے مسلمان بھائیوں سے ہمیشہ یہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ اپنے جذبات اور ردعمل کا اظہار یہاں کے احوال و ظروف، قانون اور ماحول کے دائرے میں رہتے ہوئے کریں اور ردعمل کے اس اظہار میں اپنے وطن کے دیگر باشندوں کے جذبات و احساسات کا بھی لحاظ رکھیں۔
- منشیات اور دیگر جرائم کے کنٹرول کے بارے میں نوٹنگھم کے پولیس چیف نے بھی ہماری اس گزارش سے اتفاق کیا کہ صرف قانون کے ذریعے ان امور کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عقیدہ اور خدا خوفی کا عنصر بھی ضروری ہے جو مذہب کی طرف رجوع کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، اس کے بغیر سوسائٹی کو جرائم بالخصوص منشیات وغیرہ سے پاک کرنا ممکن نہیں ہے۔
والسال برمنگھم کا نواحی قصبہ ہے جو آبادی کے تسلسل میں برمنگھم ہی کا حصہ نظر آتا ہے، وہاں ہمارے ایک عزیز دوست مولانا محمد لقمان میرپوری (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) کافی عرصہ سے تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، میں کئی سال پہلے جب والسال گیا تھا تو مولانا محمد لقمان اپنے بڑے بھائی حافظ محمد سلیمان کے ساتھ کام کر رہے تھے اور ایک مکان خرید کر اس میں مسجد و مدرسہ کا نظام چلا رہے تھے، رفتہ رفتہ اردگرد کے مکانات خریدتے ہوئے اب انہوں نے اچھا خاصا رقبہ حاصل کر لیا ہے اور طالبات کا ایک کامیاب اسکول چلا رہے ہیں جس میں بچیوں کو اسکول کی ضروری تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تعلیم سے بھی بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک اسکول خرید کر انہوں نے جامعہ ابوبکر صدیق کے نام سے لڑکوں کا درس نظامی کا مدرسہ قائم کر لیا ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے بڑی حیرت اور خوشی ہوئی کہ وہ دھیرے دھیرے والسال شہر کے اندر تین ایکڑ کے قریب زمین حاصل کر چکے ہیں اور اب متعلقہ محکموں سے پلاننگ پرمیشن حاصل کر کے ایک بڑی مسجد اور اسکول کی تعمیر کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ دیارِ مغرب میں کسی بھی عالم دین کو ڈھنگ سے کام کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے اور ہر ممکن طریقہ سے ان کی حوصلہ افزائی اور مشاورت کے ذریعے اس میں شرکت کی کوشش کرتا ہوں اور اگر اس میں نصرۃ العلوم کا کوئی ربط نظر آئے تو فطری طور پر یہ خوشی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ خدا کرے کہ مولانا محمد لقمان اپنے عزائم اور اہداف کی طرف مسلسل پیشرفت کرتے رہیں اور بارگاہِ ایزدی میں قبولیت و رضا کے سزاوار ہوں، آمین یا رب العالمین۔