روزنامہ جنگ لندن یکم نومبر ۱۹۹۵ء کی ایک خبر کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں ان دنوں ایک قانونی بل کی تجویز پر بحث جاری ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان جوڑوں کو بھی قانونی تحفظ دیا جائے جو بغیر شادی کے اکٹھے رہ رہے ہیں۔
مغربی ممالک میں باقاعدہ شادی کے بغیر اکٹھے میاں بیوی کے طور پر رہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور جنگ لندن میں ۲۶ اگست ۱۹۹۵ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں بغیر شادی کے حاملہ ہونے والی خواتین کا تناسب ۵۰ فیصد سے بڑھ گیا ہے، جبکہ ۱۹۸۲ء میں یہ تناسب ۳۰ فیصد اور ۱۹۹۲ء میں ۴۴ فیصد تھا۔ اور جنگ لندن میں ۸ جون ۱۹۹۵ء کو شائع ہونے والی چرچ آف انگلینڈ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۰۰ء تک بغیر شادی کے اکٹھے رہنے والے جوڑوں کا تناسب ۸۰ فیصد ہو جائے گا۔
شادی کے بغیر جنسی تعلقات بلکہ سالہا سال تک میاں بیوی کے طور پر اکٹھے رہنا اب مغربی کلچر کا حصہ بن گیا ہے، جسے وہاں کوئی عیب کی بات نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اسے قانونی تحفظ دینے کی بات چل رہی ہے، اور بات صرف پارلیمنٹ تک محدود نہیں رہی بلکہ چرچ نے بھی اس صورتحال کو قبول کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ چنانچہ چرچ آف انگلینڈ کی مذکورہ بالا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
’’بغیر شادی کیے اکٹھے زندگی بسر کرنا گناہ نہیں ہے لہٰذا ایسے افراد کے لیے آئندہ گناہ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔‘‘ (روزنامہ جنگ لندن ۸ جون ۱۹۹۵ء)
اور اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کے بشپ رچرڈ پالوے نے تو اور آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ
’’’زنا کے بارے میں زیادہ مفاہمانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ منشیات اور جسم فروشی کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ منشیات اور جسم فروشی کو جرم قرار دے کر ان کو کنٹرول کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اگر ان کو قانونی بنا دیا جائے تو ان پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔ یہ کہنا کہ ایڈز ہم جنس پرستوں پر خدا کا عذاب ہے، غلط اور غیر منطقی ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ لندن ۔ ۱۸ مئی ۱۹۹۵ء)
سوسائٹی کو حرفِ آخر سمجھنے اور معاشرہ کے عمومی رجحانات کو حتمی معیار قرار دینے کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ مغربی معاشرہ میں اب گناہ کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ اور نہ صرف قانون و سیاست بلکہ مذہب و اخلاق بھی مادر پدر آزاد معاشرہ کے بے لگام رجحانات کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے چلتے رہنے پر مجبور ہیں، اور ان کا اپنا کوئی معیار اور دائرہ باقی نہیں رہا۔
اس صورتحال میں مسلم ممالک کے ان دانشوروں کے حوصلوں پر انہیں داد دینے کو جی چاہتا ہے جو ویسٹرن سولائزیشن کے سراب پر ابھی تک نظر جمائے ہوئے اس کی طرف بگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کے عام افراد کو بھی اپنے پیچھے چلے جانے کی مسلسل دعوت دے رہے ہیں۔