اہل علم کے ’’تفردات‘‘ اور توازن و اعتدال کی راہ

   
۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء

[عالم اسلام کے نامور محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کے انتقال پر ان کی شخصیت اور خدمات کے اعتراف میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی ایک خصوصی اشاعت کا اعلان کیا گیا (جو بعض ناگزیر وجوہ سے منظر عام پر نہیں آ سکی) تو ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی کے مدیر مولانا سعید احمد جلال پوریؒ نے اپنے خط میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں بہت سے ایسے تفردات پائے جاتے ہیں جن پر مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ اور دیگر اہل علم نے نقد کیا ہے، جبکہ ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت سے ڈاکٹر صاحب کے ان تفردات کو استناد حاصل ہو جائے گا۔ زیر نظر مکتوب اس خط کے جواب میں تحریر کیا گیا۔]

برادر محترم مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب زید لطفکم

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ مزاج گرامی؟

گرامی نامہ موصول ہوا۔ یاد فرمائی کا شکریہ!

آپ کا ارشاد بجا ہے اور ہم نے اس نمبر میں ایک مستقل باب ’’نقد و نظر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے تفردات کی نشاندہی کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ’’خطبات بہاولپور‘‘ پر کسی علمی نقد کی تلاش میں تھے کہ آپ کا گرامی نامہ موصول ہو گیا اور ہمارا کام آسان ہوگیا۔ اس پر آپ کا بطور خاص شکر گزار ہوں۔ فجزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس مواد کا خلاصہ بھی حضرت بنوریؒ اور حضرت لدھیانویؒ کے تبصروں سمیت شامل اشاعت ہوگا۔

البتہ اس سے ہٹ کر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ’’تحفظ و دفاع‘‘ کا میدان اور ہے اور ’’دعوت و مکالمہ‘‘ کا دائرہ اس سے بہت مختلف ہے۔ اور مغرب کے قلب میں بیٹھ کر ’’دعوت و مکالمہ‘‘ کے میدان میں ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے جو خدمات سرانجام دی ہیں، جنوبی ایشیا کے حوالے سے اس میں ان کی کوئی اور نظیر ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کام زیادہ کرے گا، وہ غلطیاں بھی زیادہ کرے گا۔ کسی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر اس کے کام کو نظر انداز کر دینا اور اسے ’’ناقابل تذکرہ‘‘ کی ٹوکری کی نذر کر دینا نہ صرف یہ کہ اس شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ خود اس کام کے متعلقہ شعبہ کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

’’تفردات‘‘ خود ہمارے معروف بزرگوں میں سے کس کے نہیں رہے؟ اگر کوئی صاحب صرف انہی کو جمع کرنے اور ان پر نقد کرنے میں لگ جائیں تو زندگی بھر کسی اور کام کے لیے انہیں فرصت نہیں ملے گی۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ہمارے ہی حلقہ کے بزرگوں میں سے ہیں اور ’’بے استاذ‘‘ نہیں بلکہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے تلامذہ اور ان کے تربیت یافتہ حضرات میں سے ہیں۔ ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ دیکھ کر ہمارے دینی حلقوں نے جس طرح انہیں ’’اچھوت‘‘ بنا دینے کی روش اختیار کی ہے، وہ لائق ستایش نہیں ہے۔ ہم اپنے حلقے کو محدود سے محدود تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور علمی و فکری جدوجہد کو ہم نے ’’پیر خانوں‘‘ میں بانٹ دیا ہے۔

آپ کے ارشادات پر ذہن میں آنے والی بات میں نے بلاتکلف عرض کر دی ہے۔ کوئی پہلو طبع پر گراں گزرے تو معذرت خواہ ہوں۔

آپ کے خط پر آپ کی ہدایت کے مطابق ’’آف دی ریکارڈ‘‘ لکھ دیا ہے، مگر میرا عریضہ اس ’’صنف‘‘ سے نہیں ہے۔ کہیں شائع ہو جائے تو مجھے کوئی اشکال نہیں ہوگا۔ شکریہ و معذرت!

والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء
   
2016ء سے
Flag Counter