شہدائے لال مسجد اور تحفظ ختم نبوت کانفرنسیں

   
۱۲ جولائی ۲۰۰۸ء

۶ جولائی کو ملک کی مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا جبکہ میں اسی روز کندیاں کی طرف عازم سفر تھا۔ اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ فاجعہ کو ایک سال گزر جانے کے باوجود مسائل کے حل کی طرف کوئی پیشرفت نہ ہونے پر ’’لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی‘‘ نے لال مسجد میں ہی احتجاجی کنونشن رکھا ہوا تھا جس کی مشاورت میں شرکت کی مجھے بھی سعادت حاصل تھی اور میں نے مختلف مضامین میں اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا ہے مگر میرے لیے اس روز کندیاں خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضری ضروری تھی۔ لال مسجد کا جلسہ کامیاب رہا اور مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا جس سے لال مسجد کے حوالے سے دینی جدوجہد کا رخ متعین ہوگیا کہ دینی جماعتیں اس سلسلہ میں پر امن تحریک کے لیے تیار ہیں اور

  • جامعہ حفصہ کی تعمیر نو ،
  • جامعہ فریدیہ کی بحالی،
  • مولانا عبد العزیز کی رہائی اور
  • لال مسجد کے خلاف وحشیانہ کارروائی کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے مطالبات

کے ساتھ ساتھ لال مسجد کی تحریک کا اصل ہدف یعنی ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ بھی خطابات کے عنوانات میں سرفہرست رہا۔ اور اگرچہ جلسہ کے اختتام کے بعد میلوڈی کے قریب خودکش بم دھماکے میں ڈیڑھ درجن سے زائد افراد کی شہادت نے صدمہ و غم کی ایک نئی لہر ابھار دی مگر یہ بات قابل اطمینان ہے کہ احتجاجی جلسہ پر امن رہا اور علماء و عوام نے پورے حوصلہ و اعتماد کے ساتھ اپنے موقف اور جذبات کا اظہار کیا۔

اس کے چند روز بعد لال مسجد میں خواتین کا بھی اجتماع ہوا جس سے محترمہ ام حسان صاحبہ اور دیگر خاتون راہنماؤں نے خطاب کیا۔ انہوں نے لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام گزشتہ روز ہونے والے احتجاجی جلسہ کی کارروائی اور پروگرام پر اعتماد کا اظہار کیا جو ہمارے نزدیک اس سلسلہ میں اہم پیشرفت ہے اور اس کے لیے لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی اور محترم ام حسان صاحبہ دونوں شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔

گزشتہ روز ایک دوست نے فون پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں سب سے زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام اور کالعدم سپاہ صحابہ کی قیادت ایک اسٹیج پر جمع تھی۔ خود میرا تاثر بھی یہی ہے اس لیے کہ جمعیۃ علماء اسلام ہماری نمائندہ سیاسی جماعت ہے اور مصائب و آلام کے مختلف مراحل سے گزر جانے کے باوجود آج بھی کالعدم سپاہ صحابہ کے تحریکی قوت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد اور لال مسجد کے حوالے سے مطالبات کی تحریک کو ان دونوں قوتوں کی ضرورت ہے اور ملک میں دینی جدوجہد کے مستقبل کا تقاضا ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادتیں مل بیٹھیں اور صرف کسی جلسہ میں نہیں بلکہ باہمی مشاورت کے کسی فورم پر بھی مجتمع ہوں اور اپنی اپنی محنت کی ترجیحات اور دائرہ کار کو قائم رکھتے ہوئے عمومی جدوجہد اور مشترکہ مسائل و معاملات کے لیے باہمی مشاورت و اعتماد کے ساتھ طریق کار طے کریں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کا مقدس خون نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے کم از کم دیوبندی مکتب فکر کی جماعتوں کو ہی ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کا باعث بن جائے تو شہدائے لال مسجد کی بے چین روحوں کی کچھ نہ کچھ تسکین کا سامان ہو جائے گا، اللہ کرے کہ ہم ایسا کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔ لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی نے اسی رخ پر ملک کے دیگر شہروں میں بھی ’’شہدائے لال مسجد کانفرنسیں‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جو ایک مسلسل تحریک کے باضابطہ آغاز کا اعلان ہے اور اس اعلان کو عملی شکل دینے کے لیے تمام دینی جماعتوں، علماء کرام اور دینی کارکنوں کو سنجیدگی کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

دوسری طرف فیصل آباد میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اور محاذ گرم ہو رہا ہے جو تحفظ ختم نبوت کا محاذ ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں قادیانیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص حلقوں کی حسب سابق پشت پناہی حاصل ہے۔ پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد کے طلبہ میں قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کچھ قادیانی طلبہ کا وہاں سے اخراج کیا گیا تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر ان کی حمایت کے لیے سرگرم عمل ہوئے اور ان قادیانی طلبہ کے میڈیکل کالج سے اخراج کا فیصلہ منسوخ کرنے کا آرڈر دے دیا۔ جس پر فیصل آباد کے علماء کرام اور تاجر برادری نے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا اور احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کے ساتھ ساتھ گزشتہ جمعرات (۳ جولائی) کو شہر میں مکمل ہڑتال کر کے حکومت کو واضح پیغام دیا کہ ملک کے عوام قادیانیوں کے حوالے سے لچک کی کسی حکومتی پالیسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں تحریک ختم نبوت کے ممتاز مولانا محمد ضیاء القاسمی کے فرزند مولانا زاہد محمود قاسمی نے ۶ جولائی کو رات جامعہ قاسمیہ میں ’’کل جماعتی تحفظ ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں جمعیۃ علماء اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، کالعدم سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی، پاکستان شریعت کونسل اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، تاجر برادری کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ بریلوی مکتب فکر کے راہنما مولانا سلطان حیدری اور اہل حدیث راہنما مولانا امیر حمزہ و دیگر نے شرکت کی۔ یہ بھرپور کانفرنس تھی جس میں کم و بیش ہر جماعت اور ہر طبقہ کے نمائندوں نے شرکت کی جس پر مولانا زاہد محمود قاسمی اور ان کے رفقاء مبارکباد کے مستحق ہیں۔

راقم الحروف نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی مگر اس سے قبل عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضری کو ضروری سمجھا۔ میں ۵ جولائی کو رات جوہر آباد میں تھا، چنانچہ ۶ جولائی کو صبح وہاں سے مولانا فیصل احمد اور مولانا مفتی محمد عامر کے ہمراہ میانوالی کی طرف روانہ ہوا۔ پہلے واں بھچراں میں رئیس المؤحدین مولانا حسین علی قدس اللہ سرہ العزیز کی قبر پر حاضری دی جو میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے استاذ اور مرشد تھے، قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے تلمیذ تھے اور سلسلہ نقشبندیہ میں موسٰی زئی شریف کی خانقاہ سے وابستہ اور مجاز تھے۔ اپنے دادا استاذ اور دادا شیخ کی قبر پر حاضری اور دعا کے بعد ہم خانقاہ سراجیہ شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ دونوں سلسلے نقشبندیہ سلسلہ کی عظیم خانقاہ موسٰی زئی شریف کی شاخیں ہیں، رنگ اپنا اپنا ہے لیکن سرچشمہ ایک ہی ہے اور حسن اتفاق ہے کہ مجھے دونوں جگہ ایک ہی روز حاضری کی سعادت حاصل ہوگئی۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضری دی جو ایک عرصہ سے صاحب فراش ہیں اور چلنے پھرنے سے معذور ہیں، انہیں تحریک ختم نبوت کی تازہ صورتحال اور فیصل آباد کے حالات سے آگاہ کیا اور گزارش کی کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو اپنی روایات کے مطابق ایک بار پھر داعی کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے تمام مکاتب فکر کی جماعتوں کو تحریک ختم نبوت کے نئے راؤنڈ کے لیے مجتمع کرنا چاہیے۔ عالمی مجلس کے اہم راہنما صاحبزادہ عزیز احمد، حضرت مولانا اللہ وسایا اور حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری ان دنوں ۲۰ جولائی کو برمنگھم میں منعقد ہونے والی عالمی ختم نبوت کانفرنس کے سلسلہ میں برطانیہ کے دورے پر ہیں، امید ہے کہ ان کی واپسی پر اس حوالہ سے پیشرفت کی کوئی صورت نکل آئے گی۔

ملک کے آنے والے حالات کا نقشہ بظاہر بہت پریشان کن دکھائی دے رہا ہے اور نفاذ اسلام کی جدوجہد میں رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ اب تک اس سلسلہ میں ہونے والے کام مثلاً:

  • قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آئینی فیصلہ،
  • توہین رسالت کی سزا کا قانون،
  • سزائے موت کو قانونی نظام سے نکالنے کے اقدامات، اور
  • ملک کے اسلامی تشخص کی دستوری علامات کو ختم کرنے کی مہم

جیسے مسائل دینی قوتوں کے لیے آنے والے دور کے چیلنج ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے نئی صف بندی کی ضرورت ہے جو میرے خیال میں دو مرحلوں میں ہونی چاہیے۔ دیوبندی مکتب فکر کی تمام جماعتوں کو ’’لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی‘‘ کے فورم پر یکجا کرنے کی کوشش کی جائے اور مختلف مکاتب فکر کے اتحاد کے لیے تحریک ختم نبوت کے محاذ کو منظم و متحرک کیا جائے۔ یہ دونوں محاذ ضروری ہیں، ان کے بغیر ہم مستقبل قریب میں دینی جدوجہد کو صحیح رخ پر متحرک اور فعال نہیں رکھ سکیں گے اور حدود آرڈیننس کی طرح ان مسائل میں بھی پسپائی سے بچنا ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔ اگر لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس سلسلہ میں اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں تو وہ اپنی ذمہ داری سے سرخرو ہونے کے ساتھ ساتھ دینی جدوجہد کی نئی اور مؤثر صف بندی کا اہتمام کرنے میں بھی کامیاب ہوں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter