میں علمائے کرام کے ایک وفد کے ہمراہ ۲۸ نومبر کو جنوبی افریقہ پہنچا تھا، جبکہ ۶ دسمبر کو گوجرانوالہ واپس آ گیا ہوں۔ اس دوران میں نے متعدد دوستوں سے نیلسن منڈیلا کے بارے میں پوچھا کہ وہ کس حال میں ہیں؟ سب کا اجمالی جواب یہی تھا کہ وہ پہلے سے بہتر حالت میں ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ خبر بھی ملتی رہی کہ ان کے آبائی گاؤں میں آخری رسوم کے حوالے سے پیشگی تیاریاں جاری ہیں، جو بتاتی ہیں کہ حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ایک صاحب نے میرے بار بار پوچھنے پر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر وہ آپ کی موجودگی میں فوت ہو گئے تو کیا آپ ان کا جنازہ پڑھیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ نماز جنازہ تو نہیں پڑھوں گا، لیکن آخری رسوم میں شرکت کا یا انہیں دیکھنے کا موقع مل جائے تو اسے ضائع بھی نہیں کرنا چاہوں گا۔
نیلسن منڈیلا تحریکِ آزادی کے عالمی لیڈروں میں سے تھے، جنہوں نے نہ صرف جنوبی افریقہ کی آزادی کے لیے طویل جنگ لڑی، بلکہ دنیا کے نقشے پر دکھائی دینے والی نسلی امتیاز کی دو آخری نشانیوں میں سے ایک کے خاتمہ کی راہ ہموار کی۔ نیلسن منڈیلا سے قبل جنوبی افریقہ سفید فام، سیاہ فام، اور انڈین کہلانے والے باشندوں کے درمیان تقسیم تھا۔ تینوں کی آبادیاں الگ الگ تھیں، رہن سہن الگ الگ تھا، اور حقوق و مفادات کے معیارات الگ الگ تھے۔ گوروں کی حکومت تھی اور سیاہ فام اکثریت غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہی تھی۔ انڈین کہلانے والی آبادی، جو مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مشتمل تھی اور جس میں انڈونیشیا وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے، اپنی الگ شناخت رکھتی تھی۔ انڈین کمیونٹی تجارت و سیاست میں قدرے بیدار و متحرک ہونے کی وجہ سے سیاہ فاموں سے کسی حد تک مختلف معیار کی حامل تھی۔ اس نسلی تفریق و امتیاز اور گوروں کی اقلیتی حکومت کے خلاف نیلسن منڈیلا نے آزادی کا پرچم بلند کیا، زندگی کے کم و بیش تین عشرے جیل میں گزارے، اور عدمِ تشدد پر مبنی پُراَمن جدوجہد کے نتیجے میں اپنی قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔
میں اس سفر کے دوران اس جیل کے سامنے سے گزرا ہوں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کی سلاخوں کے پیچھے بسر کیا ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمہ کے لیے گزشتہ صدی کے دو بڑے لیڈروں کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا۔ دونوں کی جدوجہد میں یہ بات قدرِ مشترک تھی کہ انہوں نے سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کی بالاتری اور بالادستی سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کی اور دونوں کی جدوجہد تشدد سے ہٹ کر خالصتاً پُراَمن سیاسی تحریک پر مبنی تھی۔ البتہ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی دستور اور حکومت کے تحت رہتے ہوئے سیاہ فام باشندوں کے لیے برابر کے سیاسی و شہری حقوق کے لیے کامیاب جدوجہد کی، جبکہ نیلسن منڈیلا گوری اقلیت کی حکومت کے خاتمہ اور جمہوری بنیادوں پر ملک میں اکثریتی حکومت کے قیام کے لیے سرگرم عمل رہے۔ دونوں نے نسلی امتیاز کے خاتمہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دونوں کے ملکوں میں ان کی جدوجہد سے پہلے دور کے نسلی امتیاز کی نشانیاں اور آثار کچھ نہ کچھ اب بھی پائے جاتے ہیں، میں نے امریکہ اور جنوبی افریقہ دونوں جگہ گھوم پھر کر ان آثار کا مشاہدہ کیا ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کی غمازی کرتے ہیں، اور انہیں دیکھ کر ان دونوں لیڈروں کی عزیمت و استقامت اور صبر و حوصلہ کی بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔
میں ۵ دسمبر جمعرات کو صاحبزادہ مولانا زاہد محمود قاسمی کے ہمراہ ایک بجے دن جوہانسبرگ سے سعودیہ ایئر لائن کے ذریعے جدہ کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ اس وقت تک مجھے کوئی خبر نہیں تھی، مگر ایک رات جدہ ایئر پورٹ پر گزارنے کے بعد جمعہ کی شام کو لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ ایک عظیم حریت پسند رہنما اور عوام دوست لیڈر کی وفات پر صدمہ ہوا اور دل جنوبی افریقہ کے عوام کے غم میں شریک ہو گیا۔
اب سیاست کی دنیا میں نسل پرستی کی آخری علامت اسرائیل باقی رہ گیا ہے، جو یہودی نسل کی برتری کے احساس کے ساتھ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ نسلی امتیاز کے خاتمے کا دعویٰ رکھنے والی عالمی قوتیں اسے اس نسلی امتیاز کے ماحول سے نکالنے کی بجائے اس کی سرپرستی و حمایت کر رہی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی بنیاد نسل پرستی پر ہے۔ یہودیوں نے نسلی تفاخر و امتیاز کے جذبے کے ساتھ فلسطین پر دھاوا بولا تھا اور اس وقت کی عالمی قوت برطانیہ نے ”اعلانِ بالفور“ کے ذریعے انہیں یہ حق دیا تھا کہ وہ فلسطین کو اپنا نسلی وطن قرار دیتے ہوئے وہاں آباد ہوں اور اکثریت حاصل کر کے اس پر سیاسی قبضے کی طرف پیش رفت کریں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ شاید بے محل نہ ہو کہ جب ”اعلانِ بالفور“ کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھالا اور یہودیوں کو نسلی بنیاد پر فلسطین میں آباد ہونے کا حق دیا تو مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک فتوے کے ذریعے فلسطینیوں کو روکنے کی کوشش کی تھی کہ وہ یہودیوں کے ہاتھوں اپنی زمینیں فروخت نہ کریں۔ ان کے اس فتویٰ کی حمایت برصغیر کے اکابر علماء نے بھی کی تھی، جس کی تفصیل حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ”بوادر النوادر“ میں کسی حد تک موجود ہے، مگر سیاست و معیشت میں غریب مولوی کی بات کون سنتا ہے؟ چنانچہ دگنی تگنی قیمتوں پر فلسطین کی زمین کا بڑا حصہ یہودیوں کے ہاتھوں فروخت ہوا، جبکہ بہت سے حصے پر انہوں نے زبردستی قبضہ کیا، جس کی بنیاد پر اسرائیل قائم ہوا۔
اس کے چند سال بعد ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے عالمی طاقتوں کی مدد سے فوجی حملہ کر کے مصر، اردن اور شام کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا، جس میں بیت المقدس کا علاقہ بھی شامل ہے۔ اس صورت حال کا خمیازہ فلسطین کے ساتھ ساتھ عالم عرب ، بلکہ عالم اسلام کو بھی مسلسل بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا آج نہیں تو کل ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔
بہرحال نیلسن منڈیلا کی صبر آزما جدوجہد کے بعد جنوبی افریقہ تو نسلی امتیاز کی لعنت سے نجات حاصل کر چکا ہے، خدا جانے اسرائیل کو کوئی نیلسن منڈیلا کب میسر آئے گا جو فلسطینیوں کو بنی اسرائیل کی نسلی برتری کے ماحول سے آزادی دلا سکے گا؟