خلیج کا آتش فشاں

   
ستمبر ۱۹۹۰ء

کویت پر عراق کے جارحانہ قبضہ اور سعودی عرب و متحدہ عرب امارات میں امریکی افواج کی آمد سے یہ خطہ ایک ایسے آتش فشاں کا روپ اختیار کر چکا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور خلیج میں پیدا ہو جانے والی خوفناک کشیدگی کے حوالہ سے دنیا پر تیسری عالمگیر جنگ کے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

کویت دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اس کی کرنسی عراق کے قبضہ سے پہلے تک دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی کرنسی رہی ہے لیکن صرف دو گھنٹے کے عرصے میں اس کے عراق کے قبضے میں آجانے سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ مسلم ممالک جب تک اپنے وسائل کو دفاع و حرب کے لیے وقف نہیں کریں گے ان کی دولت ان کے کسی کام کی نہیں ہے، اے کاش کہ یہ نکتہ اب بھی عرب حکمرانوں کے ذہن میں آجائے۔

کویت پر عراق کا یہ جارحانہ حملہ بلاشبہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی آزادی کو سلب کرنے کا عمل ہے جو اقوام عالم کے مسلّمہ اصولوں کے منافی ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن عجلت اور گھبراہٹ میں امریکی فوجوں کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں براجمان ہو جانے کا موقع فراہم کرنا بھی سنگینی میں اس سے کم نہیں ہے اور اس سلسلہ میں عالم اسلام میں پایا جانے والا اضطراب اور بے چینی بلاوجہ نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر اسلامی سربراہ کانفرنس کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے مشترکہ دباؤ کے ذریعے عراق کو کویت سے اور امریکہ کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے ہم خلیج کے آتش فشاں کو پھٹنے اور دنیا بھر میں تباہی پھیلانے سے روک سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter