بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری حاضری شیخوپورہ میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ کے لیے ہوئی ہے، گوجرانوالہ کے بہت سے علماء کرام کا ایک عرصہ سے معمول ہے کہ سال میں ایک سہ روزہ اکٹھے لگاتے ہیں اور میں بھی اس میں شامل ہوتا ہوں، اس دفعہ ہماری تشکیل شیخوپورہ کی جامع مسجد طوبیٰ میں ہوئی ہے اور ہماری تیس کے لگ بھگ علماء کرام کی جماعت پرسوں سے وہاں تبلیغی سر گرمیوں میں مصروف ہے، آج آخری روز ہے اور ہم اسی حوالہ سے آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔
ہماری بنیادی دعوت تو وہی ہے جو دنیا بھر میں سب مسلمانوں کے لیے ہے کہ ہم سب کو دین کے اعمال اور ماحول کی طرف واپس آجانا چاہیے کیونکہ دین کے اعمال اور ماحول سے ہٹ کر ہم نے بہت خسارہ اٹھایا ہے۔ اور اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور پریشانیوں کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ہم دین کے اعمال، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز زندگی پر قائم نہیں رہے، جس کی بے برکتی نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور مصائب کی دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے کچھ بزرگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ امت کو دین کے اعمال کی طرف واپسی کی دعوت دی جائے اور اس کے لیے عملی طور پر تیار کرنے کی محنت کی جائے، مسجدیں آباد ہوں، قرآن کریم کی تعلیم کا فروغ ہو، سنت رسولؐ کے مطابق زندگی گزارنے کا ذوق پختہ ہو اور شریعت کے احکام کی پابندی کا ماحول دوبارہ قائم ہو جائے۔ میں اس دعوت کو دو دائروں میں بیان کیا کرتا ہوں:
- ایک تو یہ ہے کہ دین اسلام اور جناب نبی اکرمؐ کی دعوت ساری نسل انسانی کے لیے ہے، قرآن کریم ’’ھدی للناس‘‘ ہے اور جناب رسول اللہ نے ’’أیھا الناس‘‘ کہہ کر اپنی دعوت اور محنت کا آغاز کیا تھا۔ جبکہ آپؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے، کسی کو نبوت نہیں ملنی، اس لیے قیامت تک نسل انسانی کو دین کی یہ دعوت پہنچانا بہرحال امت ہی کی ذمہ داری ہے، اس کا اور کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے جس میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں، اب ظاہر بات ہے کہ باقی پانچ ارب انسانوں کو کلمہ کی دعوت دینا، نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ سے متعارف کرانا اور قرآن کریم ان تک پہنچانا ڈیڑھ ارب مسلمانوں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ اپنی اپنی جگہ پر ضرور سوچ لینا چاہیے کہ ہم اس ذمہ داری کو کس حد تک ادا کر رہے ہیں؟
- دعوت و تبلیغ کا دوسرا دائرہ امت کو دین کے اعمال اور ماحول کی طرف واپس لانے کا ہے، جس کے لیے تبلیغی جماعت کی یہ محنت دنیا بھر میں جاری ہے۔ اور یہ دعوت کے پہلے دائرہ کے لیے بھی ضروری ہے اس لیے کہ اسلام کی صحیح دعوت عمل و کردار کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ دنیا کے ایک بڑے حصہ میں اسلام کا فروغ عمل و کردار اور اخلاق و دیانت کے ماحول کی وجہ سے ہوا ہے، اور مسلمانوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر نسل انسانی کی کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ ویسے بھی ہماری ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں، اس میں اخروی نجات بھی ہے، دنیوی فلاح بھی ہے، برکت بھی ہے اور سکون و اطمینان بھی ہے۔
چنانچہ ہم اسی بات کی دعوت لے کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ اس محنت میں شریک ہوں، تعاون فرمائیں اور حصہ لیں۔ اس کی بڑی صورت تو یہ ہے کہ اس محنت میں باقاعدہ شامل ہوں، اپنے اوقات فارغ کریں اور خود کو اس محنت کے نظام کے ساتھ وابستہ کر لیں۔ اور اسی حوالہ سے ہم یہ دعوت بھی دے رہے ہیں کہ نومبر کے پہلے عشرہ کے دوران رائے ونڈ کا سالانہ تبلیغی اجتماع ہو رہا ہے جس میں شیخوپورہ ضلع کے احباب کی شرکت سات نومبر کو شروع ہونے والے اجتماع میں ہو گی جو چار روز تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ہماری آپ حضرات سے درخواست ہے کہ وقت نکال کر اس میں شریک ہوں اور دوسرے دوستوں کو بھی دعوت دیں۔ دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں اور علماء کرام سے ملاقات ہو گی، بزرگوں کی زیارت ہو گی، تین چار روز خیر کے اعمال میں گزریں گے اور لاکھوں مسلمانوں کی اجتماعی دعاؤں میں شرکت ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ دعوت بھی ہم دے رہے ہیں کہ دو تین روز سے طوبیٰ مسجد میں گوجرانوالہ کے علماء کرام کی جماعت ٹھہری ہوئی ہے، آج شام تک اس کی مصروفیات رہیں گی اور مغرب کے بعد عمومی بیان ہو گا۔ وکلاء برادری سے گزارش ہے کہ وقت نکال کر اس میں بھی تشریف لائیں اور اپنے مہمانوں کی نصرت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کار خیر میں شریک ہوں۔
اس کے بعد میں اپنے وکیل بھائیوں سے ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک پاکستان میں عام طور پر دو قسم کے قوانین اور احکام پر عمل ہوتا ہے:
- حکم و قانون کا ایک نظام وہ ہے جو ریاستی اور قانونی طور پر نافذ ہے اور پورے ملک میں اس پر لوگ عمل کرتے ہیں،
- جبکہ احکام و قوانین کا ایک نظام وہ ہے جو قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کی تعلیمات پر مشتمل ہیں، عام مسلمان اس پر بھی عمل کی کوشش کرتے ہیں، جو بحیثیت مسلمان ان کی دینی ذمہ داری اور فریضہ ہے۔
بسا اوقات ان دونوں نظاموں کے قوانین پر بیک وقت عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے جس سے نہ صرف الجھنیں جنم لیتی ہیں بلکہ ہمارے بیشتر معاشرتی مسائل و مشکلات کی بڑی وجہ یہی ہے۔ اس کا اصل حل تو یہ ہے کہ ریاستی سطح پر دونوں نظاموں کو یکجا کیا جائے اور قیام پاکستان کے مقصد کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی تصریحات کے مطابق ریاستی و حکومتی سطح پر قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کا نظام نافذ کیا جائے، جو بار بار کے اعلانات اور وعدوں کے باوجود نہیں ہو رہا۔ ریاستی و حکومتی قوانین کے ماہرین وکلاء کو سمجھا جاتا ہے، اور اسلامی و شرعی نظام کے ماہرین علماء کہلاتے ہیں۔ میرے نزدیک ان دونوں کے درمیان باہمی تعاون، مفاہمت اور اشتراک کی فضا انتہائی ضروری ہے جو موجود نہیں ہے، بلکہ بے اعتمادی، مغالطوں اور ایک دوسرے سے بیگانگی اور دوری کا ماحول ہر سطح پر پایا جاتا ہے جو معاشرہ کے لیے میرے نزدیک زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ختم کرنا اور دونوں طبقوں کے درمیان باہمی اشتراک و تعاون کی فضا قائم کرنا ہماری دینی اور قومی ضرورت ہے، ملکی سطح پر نفاذ اسلام کے لیے بھی یہ ضروری ہے اور پرائیویٹ سطح پر لوگوں کی راہنمائی کے لیے بھی ضروری ہے۔ میں علماء کرام اور وکلاء دونوں سے عرض کیا کرتا ہوں کہ وہ آپس میں مشاورت، تعاون اور اشتراک عمل کا کوئی راستہ ضرور نکالیں اور مل جل کر کام کرنے کی صورتیں پیدا کریں، ورنہ ہم ملک و قوم اور معاشرہ کو کنفیوژن اور تضادات سے نجات نہیں دلا سکیں گے اور نہ ہی قیام پاکستان کے مقصد کی تکمیل ہو سکے گی۔
چنانچہ وکلاء برادری کے ساتھ آج کی اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنی یہ دعوت اور پیغام ایک بار پھر دھرا رہا ہوں۔ اس مجلس میں وکلاء کے ساتھ ساتھ سرکردہ علماء کرام بھی موجود ہیں، میری دونوں سے درخواست ہے کہ وہ اس گزارش پر سنجیدگی سے غور کریں، بار اور مدرسہ کو اکٹھے بٹھانے کا اہتمام کریں، جس طرح ملک کے قانونی نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لیے بار اور بینچ کا باہمی تعاون ضروری ہے اسی طرح بار اور دارالافتاء کا باہمی تعاون و اشتراک بھی ہماری اہم ترین ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ ہم ایسا ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، آمین یا رب العالمین۔