بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملک بھر میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بحث و تمحیص جاری ہے، اس مباحثہ میں ایک مسئلہ سود کا بھی ہے۔ سود کے مسئلے پر ان ترامیم میں حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تین سال کے اندر اندر ۳۱ دسمبر ۲۰۲۷ء تک بہرحال سود کے قوانین اور نظام کو ختم کرے۔
پاکستان بننے کے بعد ہی سود کے خاتمے کی بات شروع ہو گئی تھی اور ۱۹۷۳ء کا دستور جب نافذ ہوا تھا تو اس میں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ حکومت جلد از جلد سودی نظام ختم کر کے اس لعنت سے ملک کو نجات دلائے گی۔ اس کے بعد پچاس سال گزر گئے اور عدالتی کاروائیاں، سیاسی جدوجہد اور جلسے جلوس سب کچھ ہوتا آ رہا ہے لیکن اس ’’جلد از جلد‘‘ کا دائرہ طے نہیں ہو رہا تھا۔ جبکہ ہمارے مطالبات میں ایک یہ بھی تھا کہ اس کی کوئی مدت طے کریں۔ حالیہ ترمیم کے حوالے سے جلد از جلد کی حد طے ہو گئی ہے اور حکومت کو پابند کر دیا گیا ہے کہ یکم جنوری ۲۰۲۸ء سے پہلے سودی نظام کو بہرحال ختم کرے۔ میں اس کو یوں تعبیر کرتا ہوں کہ جیسے قرضے کی ادائیگی میں ٹال مٹول ہو رہا ہو کہ جلدی دے دیں گے، لیکن جب اس کی تاریخ طے ہو جائے تو قرضہ مانگنا آسان ہو جاتا ہے، اسی طرح سودی نظام کے خاتمے کی تاریخ طے ہو گئی ہے تو ہمارے لیے مطالبہ کرنا ذرا آسان ہو گیا ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ مطالبہ کر سکیں گے کہ دو سال رہ گئے ہیں، ڈیڑھ سال رہ گیا ہے، جلدی کریں، ہمیں سودی نظام سے نجات دلائیں۔
گوجرانوالہ کے علماء کرام کا معمول ہے کہ ایسے مسائل پر مختلف مکاتب فکر کے علماء اکٹھے مل بیٹھتے ہیں۔ اس مناسبت سے ہم نے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر کے علماء نے ایک میٹنگ کی ہے جس میں طے کیا ہے کہ مل کر اس مسئلے کو نئے سرے سے چھیڑیں گے اور گوجرانوالہ سے اس مہم کا آغاز کریں گے، اس کے لیے ۳۱ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو گوجرانوالہ میں تمام طبقات کا کنونشن رکھا گیا ہے جس میں علماء کرام، تاجر برادری اور وکلاء شریک ہوں گے۔ اہل حدیث حضرات کا کھیالی میں مرکز ہے ”مرکز عثمان“ وہاں ہم کنونشن کریں گے اور اس جدوجہد کا آغاز کریں گے، ان شاء اللہ العزیز۔ ہم اپنا زور لگائیں گے اور بھرپور محنت کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ، قوم کے ذمہ قرضے ادا ہوں گے یا نہیں ہوں گے، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ قوم کا قرضہ وقت کے اندر ادا ہو جائے۔
اس موقع پر سود کے حوالے سے دو پہلوؤں پر مختصراً بات کرنا چاہوں گا کہ قرآن پاک کیا کہتا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کیا کہتی ہے؟ دین اسلام سود کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
جب سود کی حرمت کا اعلان ہوا تو دو مغالطے پھیلائے گئے تھے، قرآن پاک نے ان کا جواب دیا ہے۔
پہلی بات یہ کہ ”قالوا انما البیع مثل الربوا“ جب سود کی حرمت کا حکم آیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ سود بھی تو کاروبار کی ایک قسم ہے، تجارت حلال ہے تو سود حرام کیوں ہے؟ اگر بزنس جائز ہے تو سود بھی جائز ہے۔ قرآن پاک نے اس کا جواب دیا ”احل اللہ البیع وحرم الربوا“ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے بیع کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے۔ دوٹوک فرما دیا کہ تجارت الگ چیز ہے اور سود الگ چیز ہے، تجارت کو اللہ پاک نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
تجارت سے مراد ہے ایک چیز کا دوسری چیز سے تبادلہ۔ ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ مثلاً گندم کا چاول سے، چاول کا نمک سے، نمک کا جو سے، یہی تجارت ہے۔ اگر ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ ہو تو جو آپس میں طے ہو جائے وہ درست ہے، جیسے کھجور کا تبادلہ گندم سے ہو تو کمی بیشی جائز ہے۔ البتہ اگر کسی جنس کا اسی جنس سے تبادلہ ہو تو اس میں شریعت کمی بیشی کی اجازت نہیں دیتی، اگر کھجور کا تبادلہ کھجور سے ہے تو کمی بیشی حرام ہے۔ گندم کا تبادلہ باجرے سے ہے تو جو آپس میں طے ہو جائے درست ہے، لیکن گندم کا تبادلہ گندم سے ہے تو کمی بیشی سود ہے۔ قرآن پاک نے بیع اور ربا میں فرق بتایا کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میں نے بیع کو حلال کیا ہے سود کو حرام کیا ہے۔ ایک بات تو یہ بتائی اور مغالطہ دور کیا کہ دونوں ایک چیز نہیں بلکہ یہ الگ الگ ہیں، ایک حلال ہے اور ایک حرام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مشاہدے اور تجربے کے اعتبار سے سود سے رقم بڑھتی ہے۔ ایک سو سے ایک سو دس ہو جاتے ہیں۔ یہ اضافہ ہے اور منافع ہے، لیکن قرآن پاک نے اس کی نفی کی ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ”وما اٰتیتم من ربا لیربو فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ وما اٰتیتم من زکوٰۃ تریدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون“ کہ جو تم سود لیتے ہو اس نیت سے کہ رقم بڑھے گی، اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتی، اور جو تم اللہ کی رضا کے لیے زکوٰۃ دیتے ہو درحقیقت وہ بڑھتی ہے۔ قرآن پاک نے اس کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ سود سے رقم گھٹتی ہے اور صدقے سے بڑھتی ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ”یمحق اللہ الربا ویربی الصدقات“ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میں سود سے رقم کو بے برکت کر دیتا ہوں اور صدقے سے رقم کو برکت والی بنا دیتا ہوں۔
ہمارے ہاں بھی معیشت میں یہ بات چلتی ہے کہ ایک ہے گنتی اور ایک ہے ویلیو۔ گنتی اور چیز ہے، ویلیو اور چیز ہے۔ میں اس کی چھوٹی سی مثال دیا کرتا ہوں کہ میری شادی ۱۹۷۰ء میں ہوئی تھی، میں نے تھوڑا سا زیور بنوایا تھا اور گوجرانوالہ کے صرافہ بازار سے ایک سو ستر روپے تولہ سونا خریدا تھا، لیکن آج ایک تولہ سونے کا بھاؤ سوا دو لاکھ ہے۔ گنتی ایک سو ستر سے سوا دو لاکھ تک چلی گئی ہے، جبکہ ویلیو وہیں کی وہیں کھڑی ہے جو ایک تولہ سونا ہی ہے۔ دوسری مثال یہ دیا کرتا ہوں کہ جی ٹی روڈ گکھڑ پر ۱۹۶۰ء میں ہم نے گھر بنایا تھا اور ایک سو روپیہ فی مرلہ زمین خریدی تھی۔ میں نے خود رجسٹری کرائی تھی، اب وہاں ایک مرلہ زمین کی قیمت ایک کروڑ روپیہ بتائی جاتی ہے۔ ویلیو اس اعتبار سے وہی ہے کہ زمین تو ایک مرلہ ہی ہے، جبکہ گنتی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی دیکھ لیں کہ ویلیو کا بڑھنا یا کم ہونا اس آدمی کے اختیار میں نہیں ہے جس کی جیب میں رقم ہے۔ یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ نوٹ میری جیب میں ہے اور کنٹرول کسی اورکے پاس ہے۔ مثلاً میرے پاس ایک ہزار کا نوٹ ہے، کل یہ آٹھ سو کا بھی رہ سکتا ہے اور اس کی قوتِ خرید بڑھ کر بارہ سو بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح مال میں برکت پیدا کرنا یا بے برکتی ڈالنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں سود سے رقم کو بے برکت بنا دیتا ہوں اور صدقے سے رقم کو بابرکت کر دیتا ہوں۔ برکت اور بے برکتی کو آپ ویلیو کے لفظ میں سمجھ لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ جس طرح ہماری کرنسی کی قدر (Value) کم یا زیادہ ہوتی ہے مالیاتی اداروں کی پالیسیوں سے اور مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سود والی رقم تمہیں زیادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ کم ہے، اور صدقے والی رقم کم نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ زیادہ ہے ۔ اللہ پاک نے یہ دو مغالطے قرآن پاک میں دور کیے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے حوالہ سے عرض کروں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سود کی حرمت کا اعلان کیا تو عوامی اعلان سب سے پہلے حجۃ الوداع میں کیا۔ حجۃ الوداع میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ صحابہ کرامؓ کا اجتماع تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہؓ سے سب سے بڑی اجتماعی ملاقات تھی۔ منیٰ میں کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ سود حرام ہے۔ آپؐ کے چچا محترم حضرت عباسؓ سود کا کاروبار کرتے تھے، گویا اپنے زمانے کا بینک چلاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ساتھ کھڑا کیا اور فرمایا سب سے پہلے گھر سے شروع کر رہا ہوں، جس نے ان کا قرضہ دینا ہے اب وہ اصل رقم دے گا، سود نہیں دے گا۔ چچا جی نے کہا، بالکل ٹھیک ہے۔ میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ نئے سودے کی بات نہیں تھی بلکہ پچھلے سودوں کی بات تھی کہ جو قرضوں کے سودے تم پہلے کر چکے ہو ان میں بھی سود کے بغیر اصل رقم دو گے۔ یہ حجۃ الوداع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا۔
جبکہ دوسرا واقعہ عرض کروں کہ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا۔ اس سفر میں مکہ فتح ہوا، حنین کی جنگ میں فتح ہوئی، اوطاس کی فتح ہوئی، تین جنگیں جیتنے کے بعد واپسی پر سترہ دن تک طائف کا محاصرہ کیا لیکن طائف فتح نہیں ہو سکا۔ چنانچہ محاصرہ ختم کر کے اسلامی لشکر واپس مدینہ منورہ چلا گیا کہ پھر دیکھیں گے۔ طائف کا سردار عبدیالیل بنو ثقیف کے سرداروں کا ایک وفد لے کر مدینہ منورہ پہنچ گیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی کہ ہم طائف والے مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن چونکہ آپ ہمیں فتح نہیں کر سکے تو ہم اپنی شرطوں پر مسلمان ہوں گے۔ انہیں اس بات کا مان تھا کہ یہ ہمیں فتح نہیں کر سکے، محاصرہ کر کے اٹھایا ہے، اس لیے کہا کہ ہم کلمہ پڑھیں گے لیکن ہماری کچھ شرطیں ہیں۔ سیرۃ النبیؐ کی کسی کتاب میں بنو ثقیف کے وفد سے حضورؐ کی ملاقات کا واقعہ پڑھ لیں، سب لکھا ہوا ہے۔
(۱) انہوں نے کہا کہ ہماری اسلام لانے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ ہمارے بت کو نہیں توڑیں گے۔ ’’لات‘‘ بنو ثقیف کا بت تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے ”افرأیتم اللات والعزی“۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کی عبادت نہیں کریں گے لیکن چونکہ یہ ہماری ثقافتی یادگار ہے، لہٰذا یہ سلامت رہے گا۔
(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ آپ پانچ نمازوں کا حکم دیتے ہیں، ہم پانچوں نمازیں پڑھیں گے لیکن اوقات ہم خود طے کریں گے۔ ہم نے کاروبار بھی کرنا ہے، ملازمت بھی کرنی ہے، اس لیے اوقات کی پابندی ہمارے لیے مشکل ہے، ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں گے، پڑھیں گے، نماز سے انکار نہیں ہے لیکن ٹائمنگ ہماری ہوگی۔
(۳) تیسری شرط یہ لگائی کہ آپ کہتے ہیں شراب حرام ہے، جبکہ ہمارا تو علاقہ ہی انگوروں کا ہے۔ آج بھی طائف انگور کا علاقہ ہے اور سب سے اچھی شراب انگور سے بنتی ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ کچا انگور مارکیٹ میں جائے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اگر اسے نچوڑ کر پکا کر بیچا جائے تو سارا خرچہ نکل آتا ہے، اس لیے کہا کہ ہم شراب بنانا نہیں چھوڑیں گے ورنہ ہماری معیشت تباہ ہو جائے گی، یہ ہمارے بزنس کا مسئلہ ہے۔
(۴) انہوں نے کہا کہ ہماری چوتھی شرط یہ ہے کہ ہم سود نہیں چھوڑیں گے اور اس پر دلیل یہی دی جو آج دی جاتی ہے کہ ہمارا دوسری قوموں کے ساتھ کاروبار ہی سود پر ہے تو ہم اپنا انٹرنیشنل بزنس تباہ نہیں کر سکتے۔
(۵) پانچویں شرط یہ لگائی کہ ہمارے ہاں شادیاں بہت دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا، اس لیے ہم زنا بھی نہیں چھوڑ سکیں گے۔
یعنی ہم کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان شرطوں کے ساتھ۔ میں اس کا یوں ذکر کیا کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ یہ پانچ باتیں تو نہیں ہوں گی، اس کے علاوہ اگر کلمے میں کچھ باقی رہ گیا ہے تو پڑھا دیں۔ لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ پانچوں شرطیں مسترد کر دیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ دین کا ایک حصہ لے لو اور دوسرا حصہ چھوڑ دو۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کہ اسلام قبول کرنا ہے تو پورا قبول کرو۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام پورا ایک پیکیج ہے، یہ سپیئر پارٹس نہیں ہیں کہ یہ چیز پسند آ گئی اور وہ پسند نہیں آئی۔ پیکیج پورا ہوگا تو بات ہوگی ورنہ نہیں۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ثقیف کے وفد کی شرطیں منظور نہیں کیں۔
اس وفد کا مسجد نبویؐ میں خیمہ لگا ہوا تھا، وہ واپس اپنے خیمے میں گئے۔ رات کو انہوں نے باہم مشورہ کیا تو بات سمجھ میں آگئی کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ مکہ کا اسلام اور ہو اور طائف کا اسلام اور ہو جبکہ ان کا فاصلہ سو میل سے بھی کم ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اگر مکہ کا اسلام اور ہوتا اور طائف کا اور ہوجاتا تو گوجرانوالہ کا تو بالکل ہی اور ہوتا۔ اگر طائف کی شریعت مکہ کی شریعت سے مختلف ہو جاتی تو دنیا بھر کے باقی علاقوں میں کیا حال ہوتا؟ اس لیے وہ صبح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، معذرت کی، شرطیں واپس لیں، کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوئے۔
یہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے دو واقعے عرض کیے ہیں۔ ایک بات اور عرض کیا کرتا ہوں کہ طائف والوں کو یہ بات ایک رات میں سمجھ آ گئی تھی کہ اسلام پورے کا پورا قبول کرنا پڑے گا، لیکن ہمیں پچھتر سال سے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اسلام اور شریعت کے معاملے میں شرطیں نہیں چلا کرتیں۔ ہم نے آج بھی اسلام کو سپیئر پارٹس کی دکان سمجھ رکھا ہے کہ جو پرزہ پسند آیا لیں گے اور جو پسند نہ آیا وہ نہیں لیں گے۔ نہیں! ہمیں ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کے مطابق کسی شرط کے بغیر اسلام کو پورے کا پورا قبول کرنا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں بھی اور ہمارے حکمرانوں کو بھی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اسلام کو بطور پیکیج کے مکمل قبول کریں اور پاکستان بننے کے مقاصد کو پورا کر کے اس کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنائیں، آمین یا رب العالمین۔