قادیانیت کے حوالے سے کام کے مختلف دائرے

   
تاریخ: 
۲۷ مارچ ۲۰۱۲ء

۲۷ مارچ کو مجھے عصر کے بعد جوہر ٹاؤن لاہور میں ملی مجلس شرعی کے ایک اہم اجلاس میں شریک ہونا تھا، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ظہر کے بعد انارکلی میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی ۲۱ اپریل کو شالامار چوک لاہور میں منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلہ میں ایک اجلاس ہو رہا ہے، وہیں آجائیں وہاں سے اکٹھے چلے جائیں گے۔ اس طرح میں نے ظہر کے بعد انارکلی میں حضرت مولانا محمد ابراہیم مرحوم کی مسجد میں منعقدہ مذکورہ اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل کی، اس مسجد کے ساتھ ہماری بہت سی تحریکی اور جماعتی یادیں وابستہ ہیں۔ حضرت مولانا محمد ابراہیمؒ کا تعلق بالاکوٹ ہزارہ سے تھا، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ گہرا تعلق تھا، جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا اور میرا بھی ان سے نیازمندی کا تعلق رہا ہے۔ ان کے فرزند و جانشین حضرت مولانا میاں عبد الرحمان ہمارے دوستوں اور ساتھیوں میں سے تھے، جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ ہمیشہ تعلق رہا اور دینی و مسلکی تحریکات کی ہمیشہ سرپرستی اور معاونت کرتے تھے، کچھ عرصہ قبل اپنے وطن ہزارہ گئے تو ٹریفک کے حادثہ میں ان کا وہاں انتقال ہوگیا، ان کی وفات کے بعد پہلی بار اس مسجد میں حاضری کا موقع ملا اور تعمیر نو کے بعد مسجد کی نئی صورت دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف حصوں میں ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ کے عنوان سے بھرپور تیاری کے ساتھ اجتماعات کر رہی ہے اور ۲۱ اپریل کو شالامار چوک لاہور میں ہونے والی کانفرنس بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے جس کی کامیابی کے لیے لاہور اور گرد و نواح میں علماء کرام کی مختلف ٹیمیں متحرک ہیں اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، بھائی رضوان نفیس، مولانا عزیز الرحمان ثانی، مولانا قاری نذیر احمد اور دیگر حضرات پر مشتمل رابطہ کمیٹی اس ساری جدوجہد کی نگرانی کر رہی ہے۔ ۲۷ مارچ کو انارکلی اور اردگرد کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کا علاقائی اجلاس تھا جس میں مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ میری اچانک حاضری پر احباب بہت خوش ہوئے اور اجلاس کی صدارت کا اعزاز بخشنے کے ساتھ ساتھ اجلاس کے مقاصد کے حوالے سے کچھ عرض کرنے کی بھی فرمائش کی۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ تحفظ ختم نبوت اور قادیانیت کے تعاقب کا محاذ ہمارے دینی محاذوں میں سے ایک اہم مورچہ ہے جس پر ایک صدی سے زائد عرصے سے ہمارے اکابر جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ دین کی جدوجہد کے دیگر شعبے بھی ہمارے میدان کار ہیں، جہاد کا میدان ہو، دعوت و تبلیغ کا محاذ ہو، تعلیم و تدریس کا شعبہ ہو، اصلاح و تربیت کا دائرہ ہو، ناموس صحابہؓ کے تحفظ و دفاع کی جدوجہد، یا سیکولر قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نفاذ شریعت کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو، یہ سب دین کے کام ہیں اور ہمارے اپنے کام ہیں۔ البتہ تقسیم کار ہے جس میں ہر شعبہ کو مختلف احباب نے سنبھال رکھا ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ دوسرے مذہبی حلقوں کا کام آسان ہے کہ انہوں نے صرف ایک ایک مورچہ سنبھالا ہوا ہے مگر ہم دیوبندیوں کا معاملہ مختلف ہے کہ ہم نے ان سب شعبوں میں کام کرنا ہے اور بحمد اللہ تعالٰی ان تمام دائروں میں ہم ہی کام کر رہے ہیں، صرف اتنی بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اسے اختلاف کی بجائے تقسیم کار سمجھا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ، تعاون اور احترام کا ماحول قائم رکھا جائے۔

قادیانیوں کے ساتھ ہماری کشمکش ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے چل رہی ہے جو اس وقت بھی جاری ہے اور نہ صرف ہمارے خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اس کشمکش کے مختلف دائرے موجود ہیں:

  • مثلاً ان میں سے ایک دائرہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے اپنے بارے میں امت مسلمہ کے اجتماعی فیصلے اور دستور پاکستان کے متفقہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر رکھا ہے اور وہ مسلسل اسی پر اصرار کیے جا رہے ہیں بلکہ عالمی سطح کے مختلف فورموں پر امت مسلمہ کے اجتماعی فیصلے اور دستور پاکستان کی نفی کرتے ہوئے ان کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر ہم بھی جائیں اور دنیا کو یہ سمجھائیں کہ جن فیصلوں کو قادیانی گروہ نے چیلنج کر رکھا ہے وہ درست فیصلے ہیں، شریعت اسلامی کے مطابق ہیں، مسلمانوں کے متفقہ فیصلے ہیں اور قانون اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق ہیں۔ یہ بہرحال ہماری ذمہ داری ہے اور اسے انجام دینے کے لیے ہمیں عالمی سطح پر کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا اور بین الاقوامی فورموں اور عالمی رائے عامہ سے بے پرواہی کے رویہ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
  • قادیانیت کے محاذ پر کام کا ایک دائرہ یہ ہے کہ، اگر میری اس بات کو گستاخی نہ سمجھا جائے تو میرا تاثر اور تجزیہ یہ ہے کہ عوام تو رہے ایک طرف دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کی غالب اکثریت بھی قادیانیت کے مسئلہ کی نوعیت، پس منظر اور تقاضوں سے بے خبر ہے اور یہ بہت بڑا خلا ہے جو ہمارے دینی ماحول میں پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلہ میں صرف عقائد کے اختلاف کے حوالہ سے چند ضروری معلومات فراہم کر دینے سے بات نہیں بنے گی بلکہ قادیانیت کے تاریخی پس منظر، ان کے دجل و فریب کے مختلف مراحل، آج کے حالات میں ان کے کام کے دائرے اور طریق واردات سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ اور عالمی فورموں پر انہوں نے جو موقف اختیار کر رکھا ہے اس سے واقفیت اور اس کے جواب سے واقفیت حاصل کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے دینی مدارس کے ماحول میں ذہن سازی اور فکری تربیت کی سخت ضرورت ہے اور قادیانی فتنہ کو آج کے بین الاقوامی تناظر میں سمجھ کر اس کا تعاقب کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
  • قادیانیت کے تعاقب کی جدوجہد کا ایک دائرہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر دستوری اور قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے اور بیوروکریسی میں قادیانیوں نے جو کمین گاہیں بنا رکھی ہیں یا جو سرکاری حکام قانون کے تقاضوں کی پاسداری کرنے کی بجائے قادیانیوں کو سپورٹ کرتے ہیں ان کی نشاندہی کی جائے اور ان کی نگرانی کی جائے۔ ہمارے ہاں قانونی جنگ کا مزاج بہت کم ہے، بعض دوست کر رہے ہیں اور اچھے انداز میں کر رہے ہیں لیکن اکثر جگہ ہمارا رویہ جذبات ہی کے ذریعے سارے کام کر گزرنے کا ہوتا ہے جو کہ درست بات نہیں ہے، ہمیں قانونی جنگ قانونی ذرائع سے لڑنے کا ذوق پیدا کرنا چاہیے۔
  • عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا ایک دائرہ عوامی بیداری ہے کہ عوام کو عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کے دجل و فریب سے مسلسل آگاہ رکھا جائے۔ خصوصاً ہماری آج کی نسل کو ان دونوں باتوں سے صحیح آگاہی حاصل نہیں ہے، وہ نوجوان جو مسجد اور دینی مدرسہ سے وابستگی رکھتے ہیں اور علماء کرام اور مشائخ عظام کے ساتھ ان کا عملی تعلق ہے، ان کو چھوڑ کر باقی پوری نسل کو سرے سے قادیانیت کے بارے میں ہی کچھ پتا نہیں ہے، ان کی بڑی تعداد قادیانیوں کو مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی طرح کا ایک فرقہ سمجھتی ہے اور قادیانیوں کے لیے انہیں اپنا شکار بنانا زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا۔

میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ قادیانیت صرف عقیدہ ختم نبوت سے انکار کا کام نہیں ہے بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ثلاثون کذابون‘‘ کے ساتھ ’’دجالون‘‘ کا جو لفظ ارشاد فرمایا ہے اس کا سب سے صحیح مصداق قادیانی گروہ ہے، اس لیے قادیانیت دجل و فریب کا نام ہے جس سے بچنا کسی عام مسلمان کے بس کی بات نہیں اور علماء کرام ہی کو یہ محنت کرنا ہوگی کہ وہ عام مسلمانوں کو قادیانیوں کے دجل و فریب سے آگاہ کرتے رہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور اس محاذ پر کام کرنے والی دیگر جماعتیں مثلاً انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مجلس احرار اسلام وغیرہ ان اجتماعات کے ذریعے جو محنت کر رہی ہیں وہ بسا غنیمت ہیں، ہمیں ان سب سے تعاون کرنا چاہیے اور ۲۱ اپریل کو شالامار چوک لاہور میں منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کی بھرپور کامیابی کے لیے ہم سب کو متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۳۰ مارچ ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter