(سالانہ جلسہ دستار بندی سے خطاب کا خلاصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں حاضری میرے لیے سعادت کی بات ہے، یہ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہے، رائیس الاخیار حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات کا مرکز ہے، آج یہاں ملک بھر کے أخیار کا اجتماع ہے اور اس میں حاضری و شرکت کا موقع فراہم کرنے پر حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا شکرگزار ہوں، مجھے کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریوں اور ان کو درپیش چیلنجز کے حوالہ سے کچھ عرض کروں، یہ ایک اہم مگر پھیلا ہوا موضوع ہے جس پر گفتگو کے بیسیوں پہلو ہیں جن میں سے صرف ایک پہلو پر چند معروضات پیش کروں گا، وہ یہ کہ آج دینی مدارس اور کالجوں کے نصاب و نظام کو یکساں بنانے کی بات کی جا رہی ہے اور تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ دینی و عصری تعلیم کو یک جا کر کے ایک ہی نصاب و نظام ملک میں رائج کیا جائے، یہ ایک اچھی بات ہے مگر اس سے قبل اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ دونوں تعلیمی نصاب الگ کیوں ہوئے تھے اور ان کو اکٹھا کرنے میں رکاوٹ کون ہے؟ میں اس سوال کو چار حصوں میں تقسیم کروں گا۔
- ان دونوں تعلیمی نصابوں کو الگ الگ کس نے کیا تھا؟
- سب سے پہلے اس تقسیم کے خلاف آواز کس نے بلند کی تھی؟
- اسے ختم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ اور
- آج اس کو ختم کرنے میں کون رکاوٹ ہے؟
یہ بات درست ہے اور ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے کہ آج دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب تعلیم کالجوں اور سکولوں کے نصاب سے مختلف ہے، سکول و کالج میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ مدرسہ میں نہیں پڑھایا جاتا اور مدرسہ میں جن مضامین کی تعلیم ہوتی ہے ان کی سکول و کالج میں تعلیم نہیں ہوتی مگر یہ ہمیشہ سے نہیں ہے، پہلے یہ دونوں اکٹھے تھے جنہیں تقسیم کر دیا گیا، آئیے ایک نظر دیکھ لیں کہ یہ تقسیم کب ہوئی اور کس نے کی؟
دینی مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اسے درس نظامی کہا جاتا ہے اور یہ اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ترتیب دیا تھا۔ سہال لکھنو کے علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں ملا قطب الدین ؒ کا علمی و دینی خاندان آباد تھا اور وہ تعلیمی و دینی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے، ایک گروہ کے ساتھ ان کا جھگڑا ہو گیا جو طاقت ور تھا اور انہوں نے ملا قطب الدینؒ کو شہید کر کے ان کے خاندان کو علاقہ سے نکال دیا اور ان کے مکانات جلا کر زمینوں پر قبضہ کر لیا۔
ملا قطب الدین شہیدؒ کے بیٹے ملا نظام الدین اپنے خاندان کو لے کر لکھنو شہر میں آگئے اور اس وقت کے بادشاہ سلطان اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک یورپی تاجر کی خالی کردہ غیر آباد کوٹھی ’’فرنگی محل‘‘ عطا کر دی کہ وہ اس میں ٹھکانہ کریں اور اپنا تعلیمی نظام چلائیں، انہوں نے وہاں پناہ لی اور تعلیمی نظام قائم کیا جو اب تک ’’فرنگی محل‘‘ کے نام سے آباد ہے، ملا نظام الدین سہالویؒ نے اپنے پہلے سے چلے آنے والے نصاب تعلیم کو از سر نو مرتب کیا جو ان کے نام سے موسوم ہو کر ’’درس نظامی‘‘ کہلایا اور وہ ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ تک اس خطہ کے اکثر مدارس میں یہی نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ اس نصاب میں قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور فارسی و عربی زبان کے وہ تمام مضامین شامل تھے جو آج دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ حساب، ہندسہ، ہیئت، طب، تاریخ، جغرافیہ، وضع آلات، فلکیات، فلسفہ، منطق اور دیگر علوم بھی شامل نصاب تھے، جو آج انجینئرنگ، ریاضی، میڈیکل، سائنس اور دیگر عنوانات کے ساتھ عصری علوم کہلاتے ہیں اور سکول و کالج کے نصاب کا حصہ ہیں، یہ دونوں علوم ایک ہی چھت کے نیچے ایک چار دیواری کے اندر، ایک تپائی اور انہی اساتذہ کے ذریعہ پڑھائے جاتے تھے جو قرآن و حدیث جیسے دینی علوم کی تعلیم دیتے تھے۔
یہ سلسلہ ۱۸۵۷ء تک جاری رہا اور جب ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہماری پسپائی کے بعد انگریزوں نے براہِ راست اقتدار پر قبضہ کر لیا اور سارا نظام ختم کر کے نیا نظام رائج کیا تو نئے تعلیمی نصاب سے عربی، فارسی، قرآن کریم، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی مضامین کو خارج کر دیا اور ان علوم کو معاشرے میں باقی رکھنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے تعلیم کا یہ پرائیویٹ نظام تشکیل دیا جو آج ہزاروں دینی مدارس کی صورت میں کام کر رہا ہے۔
اس لیے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ دینی و عصری علوم کی یہ تقسیم ہم نے نہیں کی بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے اور بلاوجہ ہمارے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے، بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے صحیح طور پر یہ سوچا کہ اگر قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور عربی علوم کی تعلیم کا سلسلہ بالکل منقطع ہو گیا تو دوسری تیسری نسل میں یہ باقی نہیں رہیں گے، اس لیے ان علوم کی تعلیم و تدریس کو باقی رکھنے کے لیے دینی مدارس قائم کیے گئے جو کسی قسم کی سرکاری امداد یا مداخلت کو قبول کیے بغیر آزادانہ طور پر گزشتہ ڈیڑھ صدی سے ان علوم کی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور کم و بیش ایک صدی تک ان مدارس کا مجموعی ماحول یہ رہا ہے کہ مسجد کی چٹائیوں پر بیٹھ کر اور محلہ سے مانگ کر لائی جانے والی روٹیاں کھا کر ہزاروں علماء و طلبہ نے اس نظام کو چلایا ہے۔
یہ بلڈنگیں اور سہولتیں تو اب نصف پون صدی سے مل رہی ہیں، اس سے قبل چند بڑے مدارس کو چھوڑ کر تمام دینی مدرسہ مسجد کی صفوں اور محلہ کی روٹیوں پر ہی قائم تھا، میں نے اپنے بچپن میں یہ ماحول دیکھا ہے بلکہ خود بھی کئی سال تک محلہ کی روٹیاں مانگی ہیں، چنانچہ پہلی بات یہ عرض کروں گا کہ یہ تقسیم ہم نے نہیں کی بلکہ ہم پر مسلط کی گئی ہے، جب تک تعلیمی نظام ہمارے ہاتھ میں تھا ہم دونوں شعبوں کے علوم اکٹھے پڑھاتے تھے اور جب دینی علوم کو ریاستی نظام سے نکال دیا گیا تو نصاب سے فارغ کیے جانے والے علوم کو معاشرہ میں باقی رکھنے کے لیے ہم متحرک ہوئے اور بحمداللہ تعالیٰ اس میں سرخرو رہے، یہ محض پروپیگنڈے کا کرشمہ ہے کہ دینی علوم اور عصری علوم میں تقسیم کو ہمارے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے اور ہمارے ساتھ اس کہاوت والا معاملہ ہو رہا ہے کہ کسی جنگل کے کنارے پر ایک زمیندار کا ڈیرہ تھا، وہ رات کو جو دودھ ایک بڑے برتن میں سنبھالتے اسے جنگل سے کوئی بندر آکر پی جاتا اور تھوڑا سا دودھ قریب بندھے ہوئے کٹے کے منہ پر مل دیتا جس پر اس غریب کی روزانہ پٹائی ہوتی کہ رات کو سارا دودھ یہ پی گیا ہے، ایک روز زمیندار نے خود یہ منظر دیکھ لیا کہ آدھی رات کے بعد بندر جنگل سے اترا اور دودھ پینے کے بعد ملائی کٹے کے منہ پر مل کر جنگل میں غائب ہو گیا، اس کے بعد اس کٹے کی جان چھوٹی مگر ہماری جان اب تک نہیں چھوٹ رہی، تعلیمی نظام و نصاب کو تقسیم کرنے والا بندر اپنا کام کر کے کب کا جا چکا ہے جبکہ ہماری اب بھی پٹائی جاری ہے اور ہمیں اس تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرا کر کردار کشی کا سلسلہ بدستور چل رہا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دینی و عصری علوم کی اس تقسیم کے نقصانات کا اندازہ کر کے اس کو ختم کرنے کی بات سب سے پہلے کس نے کی ہے؟ تو اس کے لیے میں آپ کو ایک صدی پیچھے لے جا نا چاہوں گا جب دار العلوم دیوبند کے حلقہ کے سربراہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے تحریک آزادی میں مالٹا کی اسارت کے بعد واپس آکر دونوں تعلیموں کو اکٹھا کرنے کی بات کی اور خود علی گڑھ جا کر اس کی آواز لگائی جس کے نتیجے میں نہ صرف مسلم نیشنل یونیورسٹی قائم ہوئی جو پھر جامعہ ملیہ کے نام سے کام کرتی آرہی ہے بلکہ دیوبند اور علی گڑھ کے تعلیم یافتہ حضرات پر مشتمل قومی لیڈرشپ سامنے آئی جس میں مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، حکیم محمد اجمل خانؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور مفتی کفایت دہلویؒ جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔
اس کے ساتھ مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کا تیار کردہ وہ اٹھارہ سالہ تعلیمی نصاب بھی تاریخ کا حصہ ہے جس کو انہوں نے آسام میں یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا اور جس میں دینی مدارس اور سکولوں کالجوں میں پڑھائے جانے والے الگ الگ تعلیمی نصابوں کو یکجا کر کے مشترکہ تعلیمی نصاب قوم کے سامنے رکھا تھا مگر انہیں حالات کے تقاضے پر آسام چھوڑ کر دیوبند آنا پڑا اور پھر وہ یونیورسٹی وجود میں نہ آسکی جس کے لیے انہوں نے وہ نصاب تیار کیا تھا، البتہ وہ نصاب شائع شدہ صورت میں آج بھی موجود و محفوظ ہے، چنانچہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ دینی و عصری علوم کی تقسیم کے معاشرتی نقصانات کو دیکھ کر اسے ختم کرنے اور مشترکہ تعلیمی نصاب و نظام رائج کرنے کی تحریک بھی علماء کرام کی طرف سے ہی سامنے آئی۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اس تقسیم کو ختم کرنے کی ذمہ داری کس پر تھی؟ ظاہر بات ہے کہ انگریزوں نے تو خود یہ تقسیم کی تھی اور ان کے دور میں اسے ختم کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، البتہ جب ملک آزاد ہوا اور پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی الگ ریاست قائم ہو گئی تو یہ ذمہ داری پاکستان کے ریاستی نظام تعلیم کی تھی کہ وہ اس تقسیم کو ختم کر کے دونوں نصابوں کو اکٹھا کرتا اور مشترکہ نصاب تعلیم کا اہتمام کرتا اور یہ اس حوالہ سے بھی اس کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے نام سے وجود میں آیا تھا اور اس ملک میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ و فروغ کے لیے انتظام اور عدالتی ماحول فراہم کرنا اور افسران اور ججوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینا ریاستی نظام تعلیم کے ذمہ تھا مگر ستر سال گزر جانے کے باوجود ریاستی نظام تعلیم اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور عجیب سی صورت حال ہے کہ ملک کا دستور کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو ملک میں نافذ کرنا اور اسلامی معاشرتی ماحول قائم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حکومتی سطح پر عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی شعبہ میں قرآن و سنت کی تعلیم کا کوئی ماحول اور انتظام موجود نہیں ہے حتیٰ کہ قرآن کریم کی صرف ناظرہ تعلیم کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی ہمارا ریاستی نظام تعلیم اب تک گریزاں ہے جبکہ یہی بات پاکستان میں اسلامی احکام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ملک میں قانونی نظام اور انتظامی ماحول کو قیام پاکستان کے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کے لیے جہاں سول سروس کے افسران اور ملازمین کو قرآن و سنت اور فقہ و عربی کی تعلیم دینا ضروری ہے وہاں عدلیہ میں اسلام کے مطابق فیصلے کرنے کرنے کے لیے قانونی تعلیم کے نصاب میں اسلام کے عدالتی نصاب کو شامل کرنا بھی اس کا ناگزیر تقاضہ ہے، مگر ریاست کی تعلیم کا حال یہ ہے کہ وفاقی محتسب اعلیٰ کے واضح حکم اور منتخب اسمبلیوں کے فیصلوں کے باوجود ابھی تک دینی تعلیم کا بالکل ابتدائی لیول یعنی ناظرہ قرآن کریم نصاب میں شامل نہیں کیا جا رہا۔
چوتھا سوال اس حوالہ سے یہ ہے کہ اب اس میں کون رکاوٹ ہے؟ تو آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ مدارس تو میٹرک تک کی ضروری عصری تعلیم کو اپنے نظام و نصاب کا حصہ بنا چکے ہیں مگر ریاستی تعلیم دینی علوم کو نصاب کا حصہ نہیں بنا رہی مگر نصاب کو یکساں کرنے کا سارا زور دینی مدارس پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث، فقہ اسلامی اور عربی زبان کی تعلیم دینے کے لیے دینی مدارس کو اس نظام کا حصہ بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس میں ان میں سے کوئی مضمون نصاب کا باضابطہ حصہ نہیں ہے، اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ جن دینی علوم و مضامین کی تعلیم دینی مدارس نے باقی رکھی ہوئی ہے وہ بھی نصاب سے خارج ہو جائیں اور وہ ایجنڈا مکمل ہو جائے جسے برطانوی حکومت نے ۱۸۵۷ء کے بعد تعلیمی حوالہ سے نافذ کیا تھا گویا وہ تعلیمی ایجنڈا برطانوی حکومت اپنے دور میں پورا نہیں کر سکی تھی اسے اب ایک اسلامی ریاست میں مسلمان حکومت کے ذریعہ مکمل کرا لیا جائے۔
ہمارے یہ مہربان سکول و کالج اور دینی مدارس کے نصاب کو یکساں بنانے کے لیے جو کچھ کہہ رہے تھے وہی عملاً کر رہے ہیں اسے دیکھ کر مجھے وہ لطیفہ یاد آرہا ہے کہ ایک ریسٹورنٹ کے مین گیٹ پر تختی لگی ہوئی تھی کہ یہاں گھوڑے اور خرگوش کا گوشت مکس پکایا جاتا ہے اور شوقین لوگ وہاں آکر یہ شوق پورا کر لیا کرتے تھے، ایک دن کسی گاہک نے کاؤنٹر پر پوچھ لیا کہ گھوڑے اور خرگوش کاگوشت کس حساب سے مکس کیا جاتا ہے؟ تو جواب ملا کہ بالکل برابر ہوتا ہے کہ ہم ایک گھوڑے اور ایک خرگوشت کا گوشت ملا کر پکاتے ہیں۔
اور اب موجودہ حکومت کی طرف سے دونوں نصابوں کو یکساں کرنے کی مہم میں یہ بات ایک نئی سامنے آئی ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ پرائیویٹ سکولوں کا وسیع تر نیٹ ورک یعنی وہ تعلیمی نظام جو او لیول، اے لیول کے ٹائٹل کے ساتھ مغربی نظام تعلیم کو یہاں فروغ دینے میں مصروف ہے وہ تعلیمی نصاب میں یکسانیت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، یعنی قرآن و حدیث، فقہ اسلامی اور عربی زبان کی تعلیم کو اپنے نصاب و نظام میں شامل کرنے سے انکاری ہے۔
ان حقائق کی بنیاد پر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی و عصری علوم کی تقسیم نہ ہم نے کی ہے اور نہ ہی ہم اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں بلکہ ہم دینی علوم کو صحیح مقام دینے کی صورت میں اسے یکجا کرنے کے حق میں ہیں، ہمیں خواہ مخواہ مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اصل عوامل کو تلاش کیا جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔