’’دینی مدارس میں تحقیق و صحافت: موجودہ صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل‘‘

   
۲۷ جولائی ۲۰۰۴ء

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد ملک کے محبِ وطن اسلامی حلقوں کی طرف سے تبریک و شکریہ کا مستحق ہے کہ تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں وہ ایک بڑے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اپنے قیام کے بعد سے پندرہ سال کے عرصہ میں خاصا کام کر چکا ہے۔ مطالعہ و تحقیق، تجزیہ اور ریسرچ کے ادارے زندہ قوموں کی ضرورت اور علامت ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں قومی زندگی کے بہت سے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی خلا کا تنوع اور وسعت سوچنے والوں کے لیے بسا اوقات بہت پریشان کن ہو جاتی ہے۔ بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں اور اچھی خاصی محنت ہو رہی ہے، لیکن جو ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، اور جتنا ہونا چاہیے وہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ بالخصوص اسلامی اور دینی نظریاتی حلقوں میں ’’ایڈہاک ازم‘‘ اور ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ سرگرمیوں کا مزاج کچھ اس طرح راسخ ہو گیا ہے کہ سر پر پڑ جانے والے معاملات اور سامنے نظر آنے والے امور سے ہٹ کر کسی مسئلہ کے بارے میں سوچنے اور مستقبل میں پیش آنے والے خطرات و خدشات سے تحفظ کے لیے پیش بندی کی روایت ہمارے ہاں ابھی تک کوئی قابل قبول جگہ نہیں بنا سکی۔ ایسے میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا وجود غنیمت نظر آتا ہے جو پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں خود کو اس محاذ پر مصروف رکھے ہوئے ہے۔ ان کے ساتھ جناب خالد رحمان، پروفیسر سلیم منصور خالد، ڈاکٹر سفیر اختر اور دیگر دانشور دوستوں کی ٹیم اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو خلوص و محنت کے ساتھ بروئے کار لا رہی ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ساتھ ایک ملحق ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن کے نام سے برطانیہ کے شہر لیسٹر کے نواح میں سرگرمِ عمل ہے، اس کے سربراہ بھی پروفیسر خورشید احمد صاحب ہی ہیں۔ وہاں ان کی نیابت ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر مناظر حسن کرتے ہیں۔ مجھے کئی بار دونوں اداروں میں جانے اور ان کے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ اور اس فرق کے باوجود کہ ان دونوں اداروں کا فکری تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے اور میں جمعیت علماء اسلام کے فکری حلقے سے تعلق رکھتا ہوں، میرا مزاج ہے کہ ملی اور دینی حوالے سے جہاں بھی اجتماعی ضروریات کو سامنے رکھ کر کوئی کام ہوتا ہے مجھے اس پر خوشی ہوتی ہے، اور اس بات کی خواہش اور کوشش بھی ہوتی ہے کہ اس کام میں کسی درجے میں میری بھی شرکت ہو جائے۔ فکری اور نظریاتی حوالے سے میں جمعیت علماء اسلام سے منسلک ہوں اور جماعتِ اسلامی کے ساتھ میرے اختلافات بھی رہے ہیں، جو جمعیت علماء اسلام کے کسی بھی باشعور اور معقول مزاج فرد کو ہو سکتے ہیں، لیکن بحمد اللہ تعالیٰ اختلاف کی حدود اور ملی معاملات میں اشتراک و تعاون کے تقاضوں سے باخبر ہوں۔ اس لیے نہ صرف جماعتِ اسلامی بلکہ کسی بھی مکتبِ فکر کے ساتھ اختلافات مشترکہ ملی معاملات میں تعاون و اشتراک کے حوالے سے میری راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔

تمہید میں بات لمبی ہو گئی جبکہ میں عرض یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ ۲۱ جولائی ۲۰۰۴ء کو مجھے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹدیز کے ایک اور پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، جو اس نے پنجاب یونیورسٹی کے شیخ زاید اسلامک سنٹر کے تعاون سے سنٹر کی لائبریری میں ’’دینی مدارس میں تحقیق و صحافت: موجودہ صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے منعقد کیا، اور اس میں مختلف مکاتبِ فکر اور طبقات سے تعلق رکھنے والے پچاس ساٹھ ممتاز اربابِ دانش کو جمع کر کے انہیں باہمی گفتگو اور ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ بزرگ ماہر تعلیم ڈاکٹر رفیق احمد کی صدارت میں منعقد ہونے والی پہلی نشست میں مجھے بھی ’’عصر حاضر میں دینی مدارس کے طریقِ تحقیق و تالیف کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر مضمون پڑھنے کا موقع ملا، اور دیگر بہت سے اہلِ دانش کے خیالات و افکار سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ جن میں پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری، پروفیسر ڈاکٹر قیوم قریشی، پروفیسر ڈاکٹر مسکین علی حجازی، پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر ڈاکٹر احسن اختر ناز، پروفیسر عبد الجبار شاکر، پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد ظہور، اور جناب خالد رحمان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

اس راؤنڈ ٹیبل سیمینار میں دینی مدارس میں ہونے والے تحقیقی کام، تصنیف و تالیف، دینی مدارس کے جرائد و رسائل اور مدارس کی صحافتی و اشاعتی کارکردگی کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا، اور مختلف اربابِ دانش کی جانب سے اس حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے:

  1. دینی مدارس کی اہمیت دن بدن بڑھ رہی ہے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آبادی کا تقریباً ۳۹ فیصد حصہ اپنی تعلیم اور معلومات کے حوالے سے کسی نہ کسی درجہ میں دینی مدارس سے تعلق رکھتا ہے اور یہ تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ان دینی مدارس کا وجود نہ ہوتا تو غلامی کے ڈیڑھ سو سالہ دور میں نہ کوئی اذان دینے والا ملتا اور نہ کوئی جنازہ پڑھانا والا میسر آتا۔ آج ہمارے معاشرے میں نماز، روزہ اور اسلامی اقدار و روایات کے ساتھ وابستگی کا جو ماحول نظر آتا ہے وہ ان دینی مدارس ہی کی برکت ہے۔
  2. دینی مدارس میں فتویٰ نویسی کے حوالے سے تحقیقی کام شروع سے جاری ہے۔ بڑے بڑے دینی مدارس کی طرف سے علمی جرائد کا اجرا پرانی روایت ہے۔ مختلف موضوعات پر تصنیفات کا سلسلہ بھی ابتدا سے قائم ہے۔ قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر، احادیث کی شروحات اور فقہی کتابوں کے ترجمہ و تشریح کا کام کسی تعطل کے بغیر جاری ہے۔ بہت سے مدارس میں تخصص کے شعبوں کے ذریعے طلبہ سے مختلف عنوانات پر مقالات لکھوائے جاتے ہیں۔ دینی مدارس کے بہت سے فضلاء نے عصری یونیورسٹیوں کے ذریعے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے ہیں۔ قومی اخبارات میں دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے اصحابِ قلم کی نگارشات شائع ہو رہی ہیں، اور بہت سے مدارس نے اپنی ویب سائٹس بھی قائم کر رکھی ہیں۔
  3. جنوبی ایشیا میں اردو صحافت کا آغاز دینی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کے ذریعے ہوا، اور اردو صحافت کے اب سے پون صدی پہلے کے دور میں اعلیٰ سطح کے صحافیوں میں بڑی تعداد علمائے کرام کی نظر آتی ہے۔
  4. دینی مدارس میں تدریس و تحقیق اور جرائد و رسائل تینوں شعبوں میں مسلکی اختلافات کو اجاگر کرنے اور مناظرانہ انداز میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا رجحان غالب ہے۔
  5. مشترکہ ملی معاملات، جدید پیش آمدہ مسائل، اور نئی نسل کی ضرورت و دلچسپی کے امور پر تحقیق اور گفتگو کا ذوق ابھی تک نمایاں نہیں ہے۔
  6. عالمی تحقیقی اداروں، مسلم دنیا کے عالمی مراکز، اور دوسرے مسالک اور مکاتبِ فکر کے علمی اور تحقیقی کام سے استفادہ سے استغنا برتا جاتا ہے اور اسے نفسیاتی برتری کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔
  7. دینی جرائد میں بیشتر کی زبان و اسلوب اور طباعت کا معیار تسلی بخش نہیں، جبکہ قارئین کا حلقہ بھی محدود ہے۔
  8. زبان، تاریخ، نفسیات، معاشرے، تہذیب و تمدن اور دیگر سوشل علوم کی تدریس اور مطالعہ و تحقیق کی ضرورت کا احساس بیدار نہیں ہو رہا۔
  9. دینی مدارس میں لائبریریوں کا سسٹم غیر معیاری ہے، تحقیق کے لیے ضروری کتابیں میسر نہیں، کتابوں کے حصول میں شخصی اور مسلکی ذوق غالب ہے، اور جو کتابیں موجود ہیں اساتذہ اور طلبہ کو سہولت اور ضرورت کے مطابق ان سے استفادہ کے مواقع میسر نہیں ہیں۔
  10. تحقیق و مطالعہ اور تصنیف و تالیف کی تربیت کا کوئی اجتماعی اور ادارتی نظم موجود نہیں۔ اور جو تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے وہ شخصی ذوق اور شخصی حوصلہ افزائی کے باعث ہو رہا ہے۔
  11. انگریزی، عربی اور اردو میں سے کوئی زبان بھی اس انداز سے عام دینی مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی جس سے فی البدیہہ گفتگو اور انشاء پردازی کی صلاحیت و استعداد پیدا ہو سکے۔
  12. تہذیب و ثقافت کی برتری اور غلبہ کے لیے عالمی کشمکش کے اس دور میں بھی دینی مدارس میں تہذیب و معاشرت، تدریس اور تحقیق و مطالعہ کا موضوع نہیں ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ اور طلباء کی بڑی تعداد موجودہ علمی تہذیبی کشمکش کے ادراک سے محروم ہے۔

یہ ہیں وہ چند امور جو کم و بیش پانچ گھنٹوں کے دورانیہ پر مشتمل اس سیمینار میں ہونے والی گفتگو کے خلاصہ کے طور پر ذہن میں محفوظ رہ گئے، جبکہ میرے خیال میں دینی مدارس کے پالیسی ساز دوستوں کو اس سیمینار کی مکمل کاروائی سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے، جو جناب خالد رحمان کے اعلان کے مطابق کتابی شکل میں شائع کی جا رہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter