ماڈل دینی مدرسوں کا حشر

   
نومبر ۲۰۱۱ء

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں دینی مدارس کے معاشرتی کردار کا ماحول تبدیل کرنے کے لیے سرکاری سطح پر متوازی ماڈل دینی مدارس کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور کروڑوں روپے خرچ کر کے چند ماڈل دینی مدارس تعمیر کیے گئے تھے جن میں اساتذہ اور طلبہ کے لیے سہولتوں اور مفادات کے پرکشش اعلانات بھی ہوئے تھے۔ مگر ان ماڈل مدرسوں کا کیا حشر ہوا؟ اس کی جھلک روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۲۵ ستمبر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

’’کروڑوں کی لاگت سے مکمل ہونے والے ماڈل دینی مدرسہ میں پانچ سال بعد بھی تعلیمی سلسلہ شروع نہ ہو سکا۔ ۸ کنال رقبہ پر تعمیر مدرسہ میں نشیئوں، آوارہ کتوں، بلیوں نے ڈیرے جما لیے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں پنجاب بھر کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر شہروں میں طالبات کو دینی تعلیم سے روشناس کروانے کے لیے ماڈل دینی مدرسے تعمیر کروائے گئے تھے، گوجرانوالہ شہر کے علاقہ چمن شاہ قبرستان کے قریب واقع حضرت لاہوری شاہ ؒ کے دربار کی اراضی پر ماڈل دینی مدرسہ تعمیر کروایا گیا جس پر دس کروڑ روپے لاگت آئی اور ۲۰۰۶ء میں ۲۲ کے قریب کلاس روم، پرنسپل آفس و اسٹاف روم تیار ہو گیا تھا۔ حکومتی منصوبہ کے مطابق اس مدرسہ میں طالبات کو جدید تعلیم، کمپیوٹر اور دیگر نصاب پڑھایا جانا تھا۔ مدرسہ کو ۲۰۰۶ء میں مکمل کر دیا گیا تھا مگر کلاس شروع نہ ہونے کی وجہ سے ماڈل مدرسہ نشیؤں اور آوارہ جانوروں کی آماجگاہ بن گیا۔ گزشتہ سال مقامی ایم پی اے نے مذکورہ مدرسہ میں سرکاری سکولوں کی طالبات کی کلاسیں شروع کرا دی تھیں مگر محکمہ اوقاف کی مداخلت پر اسے خالی کروا لیا گیا اور تا حال اس میں کلاسیں دوبارہ شروع نہیں کی جا سکیں۔

روزنامہ ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر ڈویژنل ایڈمنسٹریٹر محکمہ اوقاف چودھری محمد اسلم کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ماڈل دینی مدرسہ کے مستقبل کے لیے کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے لیکن ابھی تک اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا، انہوں نے کہا کہ نشیئوں اور آوارہ کتوں کے بارے میں شکایات پر محکمہ کی طرف سے ماڈل دینی مدرسہ میں نگران مقرر کر کے ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔‘‘

ہماری معلومات کے مطابق اس قسم کے ماڈل مدرسے دیگر شہروں میں بھی بنا ئے گئے تھے جو اسی طرح کی صورتحال سے دو چار ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ دینی مدرسہ چلانے کے لیے کروڑوں روپے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ اس سے بہت کم رقم میں بھی چل جاتے ہیں مگر اس کے لیے خلوص، دیانت، تعلیمی ذوق، دینی ماحول، سادگی، قناعت، صبر و حوصلہ اور خدمت دین کا جذبہ درکار ہوتا ہے جو بحمد اللہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود آج بھی علماء کرام ہی کے طبقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے دینی مدرسہ وہی چلائیں گے تو چلے گا، یہ کام کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:

جس کا کام اسی کو ساجھے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
   
2016ء سے
Flag Counter