گزشتہ روز وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام ’’قومی علماء و مشائخ کونسل پاکستان‘‘ کے ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جو لاہور کے ایک ہوٹل میں وزیر مذہبی امور محترم ڈاکٹر نور الحق قادری کی زیرصدارت منعقد ہوا اور اس میں وزارت کے متعدد وفاقی اور صوبائی افسران کے علاوہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی جن میں مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا غلام محمد سیالوی، ڈاکٹر احمد علی سراج، مولانا محمد یاسین ظفر، مولانا علی محمد ابو تراب، مولانا عارف حسین واحدی، مولانا زاہد قاسمی، مولانا محمد ایوب صفدر، مولانا سید چراغ الدین شاہ ، مولانا قاضی نثار احمد، مولانا عبد المجید ہزاروی، مولانا فضل الرحمان خلیل اور ڈاکٹر راغب حسین نعیمی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ کونسل سابقہ حکومت کے دور میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان کی مساعی سے قائم ہوئی تھی جو علماء کرام کے ساتھ مسلسل رابطوں، حج کے بہترین انتظامات اور دینی امور میں گہری دلچسپی کے باعث کم و بیش سبھی حلقوں میں قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ روایت سی بن گئی ہے کہ حکومت بدلتی ہے تو پہلی حکومت کے اچھے کاموں کی بساط بھی لپیٹ دی جاتی ہے اور ہر معاملہ میں نئی حکومت الگ پالیسی طے کر کے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ سے کام شروع کرنے کو ترجیح دیتی ہے جس سے کوئی کام بھی فطری رفتار سے آگے نہیں بڑھتا اور ایڈہاک ازم کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اس لیے جب ’’قومی علماء و مشائخ کونسل پاکستان‘‘ کے اجلاس کا دعوت نامہ ملا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ سابقہ حکومت کے ایک اچھے کام کے تسلسل کو قائم رکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ پہلے سے طے شدہ سرگرمیوں میں اس کی گنجائش اگرچہ نظر نہیں آرہی تھی مگر میں نے اپنے ساتھ خاصا ’’دھکا‘‘ کر کے اس میں گھنٹہ بھر کی شمولیت کی صورت نکالی۔
اجلاس میں اس امر کو مسلسل سراہا گیا کہ ’’قومی علماء و مشائخ کونسل پاکستان‘‘ کا تسلسل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ اس بات پر زور دیا گیا کہ اس کے لیے قانون سازی کر کے اسے باقاعدہ ریاستی ادارہ کی شکل دے دی جائے تو یہ کونسل زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنا کردار ادا کر سکے گی۔ اس پر وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری نے اپنے خطاب کے دوران وعدہ کیا کہ وہ قانون سازی کے لیے پیشرفت کا اہتمام کریں گے۔ ایک اور بات بھی اس حوالہ سے زیر بحث آئی اور راقم الحروف نے بھی اپنی گفتگو میں اسی پر زیادہ زور دیا کہ نئے سرے سے معاملات کا آغاز کرنے کی بجائے اب تک کیے جانے والے کام، تجاویز اور سفارشات پر ایک نظر ڈال کر ان کے تسلسل کو آگے بڑھایا جائے۔ ’’قومی مشائخ و علماء کونسل پاکستان‘‘ نے سابقہ دور میں مختلف مسائل پر خاصا وقیع کام کر رکھا ہے جسے مطلوبہ مقاصد و اہداف کے لیے منظم اور مسلسل محنت کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے، جبکہ اجلاس میں مقررین نے بھی اسی کی طرف بطور خاص توجہ دلائی۔
اجلاس کے ایجنڈے میں ایک اہم نکتہ ’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘ کے ساتھ مفاہمت اور اشتراک کے امکانات کا جائزہ لینا تھا جس پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان ہمارے ملک کا ایک باوقار علمی فورم ہے جو مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام، مشائخ عظام اور راہنماؤں پر مشتمل ہے اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے اس کے مستقل اور مؤثر کام کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ خاص طور پر اس کونسل نے سنی شیعہ کشمکش کے عروج کے دور میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے جو ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ مرتب کیا تھا اس پر آج بھی تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ قائدین متفق ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے لیے مسلسل زور دیا جا رہا ہے۔ مذکورہ اجلاس میں بھی اس کا بار بار تذکرہ ہوا اور تقاضہ کیا گیا کہ اس ضابطۂ اخلاق کی ہر سطح پر تشہیر و فروغ کے ساتھ ساتھ اسے قانون سازی کے ذریعے قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔ البتہ یہ بات بھی اہمیت کے ساتھ کی گئی کہ چونکہ مختلف حوالوں سے متعدد ایسے فورم موجود و متحرک ہیں جو تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ میں مفید خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس لیے ’’قومی مشائخ و علماء کونسل پاکستان‘‘ کو اس قسم کے سب فورموں کے ساتھ یکساں رابطہ رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کرنا چاہیے اور سب کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اجلاس میں پاکستان کو ریاست مدینہ طرز کی ریاست بنانے کے حکومتی عزم کا تذکرہ بھی ہوا اور یہ تجویز پیش کی گئی کہ اس کے لیے ذہن سازی، بریفنگ اور رائے عامہ ہموار کرنے کی محنت میں قومی علماء و مشائخ کونسل کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
اجلاس میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ سابقہ حکومت کے وزیر مذہبی امور کی طرف سے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سالانہ ’’سیرت کانفرنس‘‘ کو ختم نبوت کے عنوان سے موسوم کرنے کا اعلان ہوا تھا، چنانچہ وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری کی زبان سے یہ معلوم کر کے مزید خوشی ہوئی کہ یہ فیصلہ بدستور قائم ہے اور اس سال یہ کانفرنس ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کے عنوان سے ہی منعقد ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب محترم کے ساتھ اس سے پہلے کوئی ملاقات مجھے یاد نہیں اور بظاہر یہ پہلی ملاقات لگتی ہے جو قومی علماء و مشائخ کونسل کے مذکورہ اجلاس میں شرکت اور ایک دوسرے کی باتیں سن لینے کی صورت میں ہوئی، مگر اس ملاقات کا تاثر بہت اچھا رہا۔ کھلے دل و مزاج کے بزرگ لگتے ہیں اور کام کے عزم کے ساتھ حوصلہ و اعتماد سے بھی بہرہ ور دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ وفاقی وزارت مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل جناب محمد اسلام شاہ اور قومی علماء و مشائخ کونسل پاکستان کے کوارڈینیٹر قاری محبوب الرحمان جیسے معاملہ فہم اور متحرک ساتھیوں کی ٹیم بھی یہ امید دلا رہی ہے کہ ملک کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل یہ مشترکہ قومی فورم ان شاء اللہ تعالٰی اپنے اہداف و مقاصد کی طرف نتیجہ خیز پیشرفت کرے گا۔