تقسیم ہند کی معقولیت سے انکار

   
۸ فروری ۱۹۷۴ء

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے گزشتہ روز لاہور میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ عجیب و غریب انکشاف فرمایا ہے کہ ’’پاکستان مذہبی ملک نہیں ہے‘‘ اور یہ کہ ’’کسی ملک کے سیکولر ہونے سے اس کے اسلامی مزاج میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ (روزنامہ مشرق لاہور ۔ یکم فروری ۱۹۷۴ء)

خدا جانے مذہب کے نام سے بھٹو صاحب کی اس جھجھک کا پس منظر کیا ہے، حالانکہ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر ’’لا الٰہ الّا اللہ‘‘ کا نعرہ لگا کر قائم کیا گیا تھا۔ اور جن لوگوں نے پاکستان کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں ان کے پیشِ نظر صرف یہی مقصد تھا کہ پاکستان اسلام کے لیے بن رہا ہے جہاں اسلام کی حکمرانی ہوگی، قرآن و سنت کا بول بالا ہوگا اور ہم اپنے مذہب کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کر سکیں گے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی اور تحریکِ پاکستان کے علمبردار ایک ہاتھ میں قرآن کریم اور دوسرے ہاتھ میں حدیث پکڑ کر اسے پاکستان کا قانون و آئین بنانے کا اعلان نہ کرتے تو یہ پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔

پھر برصغیر کی تقسیم کی منطقی بنیاد بھی صرف مذہب ہے۔ اگر مذہب کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو تقسیمِ ہند کی کوئی معقول وجہ متعین نہیں کی جا سکتی۔ آخر برصغیر کے دوسرے باشندوں کے ساتھ ہمارا کیا اختلاف تھا جس کی بنا پر ہم علیحدگی پر مجبور ہوئے؟ رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے رشتے تو ان کے ساتھ آج بھی قائم ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جب برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی بنیاد صرف مذہب ہے تو پاکستان کی مذہبی حیثیت سے انکار کو تقسیمِ ہند کی معقولیت سے انکار کے سوا اور کیا عنوان دیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے نظریاتی اور مذہبی ریاست ہونے سے گزشتہ چھبیس برس میں کسی نے انکار نہیں کیا۔ حتیٰ کہ مرحوم لیاقت علی خان، جن کی طرف بھٹو صاحب نے ’’پاکستان مذہبی ملک نہیں ہے‘‘ کا جملہ منسوب کیا ہے، انہوں نے خود دستور ساز اسمبلی میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کرائی جو دستور سازی کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور خود بھٹو صاحب نے اسے آئین کا دیباچہ بنایا ہے۔ اس قراردادِ مقاصد کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں:

’’چونکہ تمام کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ صرف خداوند تعالیٰ کی عظیم ذات کو حاصل ہے اس لیے جو اختیارات اپنی حدود میں رہ کر پاکستان کے عوام نے استعمال کرنے ہیں وہ ان کے پاس خداوند تعالی کی طرف سے مقدس امانت ہیں اور پاکستان کے عوام کی مرضی ہے کہ وہ ایسا نظام بنائیں:

  • جس میں ریاست تمام اختیارات اور طاقت کا استعمال عوام کے نمائندوں کے ذریعے کرے،
  • جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کا اسلام کے احکامات کے مطابق پاس کیا جائے گا،
  • جس میں مسلمان اس قابل ہوں گے کہ اپنی زندگیوں کو انفرادی و اجتماعی دائروں میں اسلام کی ہدایات اور ضروریات کے مطابق ڈھال سکیں، وہ ہدایات جن کا پتہ قرآن پاک اور سنت نبویؐ سے ملتا ہے۔‘‘

اور اب تو خود بھٹو صاحب کے پیش کردہ آئین میں یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ:

  • پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا،
  • قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہوگا،
  • اور پہلے سے نافذ قوانین کو بتدریج اسلام کے مطابق بنایا جائے گا۔

الغرض تحریکِ پاکستان کی نظریاتی جدوجہد، قراردادِ مقاصد اور آئین کی واضح تصریحات اس امر کا اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی مذہبی ریاست ہے اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں (کہ اس سلسلہ میں ابہام پیدا کرنا قیامِ پاکستان کے بنیادی مقاصد کے منافی ہے۔)

   
2016ء سے
Flag Counter