قرآنی تعلیمات کا فروغ اور صوبائی وزیر ڈاکٹر خالد رانجھا

   
جولائی ۲۰۰۰ء

پنجاب کے وزیر قانون و اقلیتی امور ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا ہے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، اور یہ ایک اسلامی ملک ہے جہاں قرآن بنیادی آئین کی حیثیت رکھتا ہے، اور کوئی بھی حکومت یا اسمبلی قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون منظور کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۱۹ جون ۲۰۰۰ء کی ایک رپورٹ کے مطابق الحمرا ہال لاہور میں ادارہ تعلیماتِ قرآن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے علماء کرام سے کہا ہے کہ وہ قرآن کریم کے وہ حصے جن کا تعلق شہادت، انصاف، انسانی حقوق اور حقوق العباد سے ہے، لوگوں کو ان کی ذہنی سطح پر جا کر سمجھائیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں جو کمی اور محرومیاں نظر آتی ہیں وہ قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں۔

ہمیں ڈاکٹر خالد رانجھا صاحب کے اس ارشاد سے اتفاق ہے کہ معاشرہ کی بہت سی خرابیاں اور محرومیاں قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں، اور علماء کرام کو قرآن کریم کا فہم عام کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے۔ لیکن اس حوالے سے ہم ڈاکٹر صاحب موصوف سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ علماء کرام تو معاشرہ میں قرآن کریم کا فہم عام کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں، اور اس وقت ہمارے ملک میں قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر، درس اور تعلیم و اشاعت کے سلسلہ میں جو محنت ہو رہی ہے اس کا بیشتر حصہ علماء کرام اور دینی مدارس کی ان کوششوں پر مشتمل ہے جو وہ رضاکارانہ اور امداد باہمی کی بنیاد پر سرکاری امداد اور تعاون کے بغیر کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی اسلامی ریاست کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ اور ریاستی ادارے اس مقصد کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب محسوس نہ فرمائیں تو ان سے یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ

  • کچھ عرصہ قبل وفاقی وزارتِ تعلیم نے ملک بھر کے پرائمری اسکولوں میں ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم لازمی قرار دینے اور اس کا اہتمام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن حکومت اپنے تمام تر وسائل کے باوجود قرآن کریم کی تعلیم کو عام کرنے کے سلسلہ میں ابتدائی سطح کی اس ذمہ داری کو نبھانے میں بھی ابھی تک سنجیدہ نہیں ہے۔
  • جبکہ اس کے برعکس جو دینی مدارس قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے شب و روز محنت کر رہے ہیں، حکومتی ادارے بین الاقوامی دباؤ کے تحت ان کے خلاف مختلف اقدامات کا اعلانات کر کے انہیں ہراساں کرنے اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس لیے ڈاکٹر صاحب علماء کرام کو ان کے فرائض کی طرف ضرور توجہ دلائیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اسی حوالے سے سرکاری محکموں کی کارکردگی، طرزعمل اور عزائم کا جائزہ بھی لے لیں، کیونکہ خرابی کی اصل جڑ وہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter