گزشتہ روز ایک قومی اخبار کے دفتر سے فون پر مجھ سے پوچھا گیا کہ حکومت ملک کے قانونی نظام میں موت کی سزا کو ختم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں بل لانے کی تیاری کر رہی ہے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے اجمالاً عرض کیا کہ:
- اگر ایسا کیا گیا تو یہ قرآن کریم کے صریح حکم سے انحراف ہوگا اس لیے کہ قرآن کریم میں قصاص کے قانون کو مسلمانوں کے فرائض میں شمار کیا گیا ہے۔ (البقرہ ۱۷۸)
- پھر یہ دستور پاکستان کے بھی منافی ہوگا اس لیے کہ دستور میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنا سکے گی۔
- نیز ایسا کرنے سے معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ان میں اضافہ ہوگا، اس لیے کہ انسانی نفسیات یہ ہے کہ جس قدر سنگین جرم سے روکنا مقصود ہو اس کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہونی چاہیے ورنہ جرم پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ جن ملکوں میں سنگین جرائم پر موت کی سزا کا قانون موجود ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے، وہاں جرائم کی شرح کم ہے۔
مختلف جرائم پر قتل کی سزا کا قانون تمام آسمانی مذاہب کی تعلیمات کا حصہ رہا ہے اور یہ سزا ہر دور میں نافذ رہی ہے۔ یہودی اور مسیحی مذاہب میں یہ سزا پوری شدت کے ساتھ نافذ تھی جیسا کہ مسیحی اشاعت خانہ (فیروز پور روڈ، لاہور) کی شائع کردہ ’’قاموس الکتاب‘‘ کے مصنف ایف ایس خیر اللہ نے ’’سزائے موت‘‘ کے ضمن میں لکھا ہے کہ بائبل میں جن جرائم پر موت کی سزا بیان کی گئی ہے ان میں (۱) بت پرستی (۲) خدا کی توہین (۳) والدین کی بے حرمتی (۴) ہفتہ کے مقدس دن کی توہین (۵) جادوگری (۶) زنا کا ارتکاب (۷) اغوا (۸) اور جانور کے ساتھ بدفعلی کے جرائم شامل ہیں۔ جبکہ سزائے موت کے طریقوں میں انہوں نے بائبل کے حوالہ سے (۱) سنگسار کرنے (۲) آگ میں جلانے (۳) تلوار کے ساتھ قتل کرنے (۴) پھانسی دینے (۵) آرے کے ساتھ چیرنے (۶) پہاڑ سے دھکیل دینے (۷) اور لوہے کے کیلوں کے نیچے دبانے کے طریقوں کا ذکر کیا ہے۔
جاہلیت کے دور میں قتل کرنے کے طریقوں میں (۱) ابلتے ہوئے تیل میں ڈالنے (۲) زندہ دفن کر دینے (۳) لوہے کا کفن پہنانے اور گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر ان کو الٹے سمت دوڑا دینے کے طریقوں کا تذکرہ بھی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے لوگوں میں سے مکہ مکرمہ کے ابتلا و ایمان کے دور میں جس خاتون حضرت سمیہؓ نے سب سے پہلے جام شہادت نوش کیا تھا، انہیں مشرکین مکہ نے یہی سزا دی تھی کہ ان کی ٹانگیں دو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر انہیں ایک دوسرے کی مخالف سمت چلا دیا تھا جس سے حضرت سمیہؓ کے جسم کے دو ٹکرے ہوگئے تھے۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام نے موت کی سزا کو تو برقرار رکھا مگر اس کے اسباب اور طریقوں میں بہت سی اصلاحات کیں جن میں سے تین چار باتیں بہت زیادہ اہم ہیں:
- ایک یہ کہ جاہلیت کے دور میں قصاص اور انتقام کا رواج قبائلی حوالہ سے تھا کہ ایک قبیلہ کے کسی شخص نے دوسرے قبیلے کے کسی شخص کو قتل کر دیا ہے تو اس کے بدلے میں قاتل کے قبیلے کا کوئی بھی شخص قتل کر دیا جاتا تھا۔ جناب نبی اکرمؐ نے اس کی ممانعت فرما دی اور حکم دیا کہ بدلہ صرف قاتل سے لیا جائے گا اور اس کی جگہ اس کے خاندان یا قبیلہ کے کسی دوسرے فرد کو اس کے جرم کی سزا نہیں دی جائے گی۔
- دوسرا یہ کہ سزائے موت کے اسباب بھی متعین اور محدود کر دیے کہ اب صرف ان جرائم میں کسی کو قتل کیا جا سکے گا۔ (۱) قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا (۲) شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا (۳) مرتد کو قتل کی سزا دی جائے گی (۴) گستاخ رسول کی سزا قتل ہوگی (۵) اسلامی حکومت کے باغی کو قتل کیا جا سکے گا (۶) اور میدان جنگ میں دشمن کا قتل جائز ہوگا۔ اس کے سوا ہر قسم کے قتل کو اسلامی شریعت نے ’’قتل ناحق‘‘ شمار کیا ہے اور اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کرنے کے ساتھ ساتھ قانونی جرم قرار دے کر اس کی سزا دنیا میں بھی مقرر کی ہے۔
- تیسری بات یہ کہ جو قتل جائز قرار دیے گئے ہیں ان میں بھی عام شخص کو قتل کا حق دینے کی بجائے قاضی اور عدالت کو اس کا مجاز ٹھہرایا ہے کہ مجاز عدالت یا اتھارٹی کے باقاعدہ فیصلے کے بغیر کسی کو قتل کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا شریعت نے روا نہیں رکھا۔
- اور چوتھی بات یہ کہ سزائے موت کے مروجہ طریقوں کو بھی محدود کر دیا۔ جناب نبی اکرمؐ نے آگ میں جلانے، مثلہ کرنے یعنی چہرے کو بگاڑنے، نشانہ بنا کر تیر اندازی کرنے، اور زندہ دفن کرنے کی صراحتاً ممانعت فرما دی۔ بلکہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’لا قود الا بالسیف‘‘ تلوار کے بغیر قصاص نہیں ہوگا۔ جس کی بنیاد پر فقہائے احناف کا موقف یہ ہے کہ کسی قاتل نے جس طریقہ سے بھی اپنے مقتول کو قتل کیا ہے اس سے قصاص اور بدلہ صرف تلوار کے ذریعے ہی لیا جائے گا۔
- اسی طرح اسلام نے قصاص کو مقتول کے ورثاء کا حق قرار دیا ہے اس لیے کہ اس کے قتل سے وہ براہ راست متاثر ہوئے ہیں، چنانچہ انہی کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اگر قصاص لینا چاہیں تو قصاص لیں اور عدالت انہیں جرم ثابت ہونے کی صورت میں قصاص دلوانے کی پابند ہے۔ لیکن اگر مقتول کے ورثاء اپنے قصاص کے حق سے دستبردار ہو کر قاتل کو معاف کر دیں یا اس سے دیت یعنی خون بہا لے کر اس کی گلو خلاصی کر دیں تو وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ان کا حق ہے، کسی اور کو قاتل کے لیے معافی کا فیصلہ کرنے کا اختیار اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔
قرآن کریم نے قصاص کا جو قانون بیان کیا ہے اس میں جان کے بدلے جان کے ساتھ اعضا کا قصاص بھی شامل ہے کہ اگر کسی نے کسی شخص کا ہاتھ، پاؤں، کان، ناک یا جسم کا کوئی اور عضو کاٹ دیا ہے تو بدلے میں اس کا وہی عضو کاٹا جائے گا۔ اس سلسلہ میں بخاری شریف میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ کی ہمشیرہ نے کسی عورت کو مکا مار کر اس کا دانت توڑ دیا۔ وہ عورت قصاص کا مطالبہ لے کر آنحضرتؐ کے پاس آئی اور آپؐ نے قصاص میں دانت توڑنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر انس ؓ بہت مضطرب ہوئے اور دربار رسالتؐ میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میری بہن کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کتاب اللہ کا فیصلہ ہے اس پر عمل تو ہر حال میں ہوگا۔ اس طرح جناب نبی اکرمؐ نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے سے انکار کر دیا، مگر وہ عورت بعد میں بدلے کی بجائے معاوضے پر راضی ہوگئی جس کی وجہ سے حضرت انسؓ کی ہمشیرہ کا دانت ٹوٹنے سے بچ گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ قصاص جان کا ہو یا عضو کا، یہ مقتول کے ورثاء اور متاثرہ شخص کا حق ہے، اسے وہی معاف کریں تو معافی مل سکتی ہے ورنہ عدالت بھی مجاز نہیں ہے کہ وہ جرم ثابت ہوجانے پر اس سزا میں تبدیلی کر سکے۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ قصاص یا دیگر جرائم میں موت کی سزا آسمانی تعلیمات کا حصہ ہے، بائبل اور قرآن کریم دونوں یہ سزائیں بیان کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اہم اصلاحات کے ساتھ موت کی سزا کے قانون کو برقرار رکھا ہے۔ جبکہ قرآن کریم نے نہ صرف اسے مسلمانوں کے لیے واجب قرار دیا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ’’ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب‘‘ (البقرہ ۱۷۹) اے ارباب دانش! تمہارے لیے قصاص کے قانون میں زندگی اور امن ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان کے ارباب اقتدار کو عالمی دباؤ کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی وہ قرارداد انہیں اس بات کے لیے مجبور کر رہی ہے کہ وہ موت کی سزا کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کریں جس میں دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے قانونی نظام میں موت کی سزا کو ختم کر دیں۔ مگر ہماری گزارش ارباب حکومت اور ارکان پارلیمنٹ سے یہ ہے کہ ہمارے لیے قرآن و سنت کے احکام اور قوانین شریعت ہر چیز سے مقدم ہیں، اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے بھی کہ ہم نے مغرب کی طرح آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا کوئی فیصلہ نہیں کر رکھا کہ آنکھیں بند کر کے آسمانی تعلیمات کو مسترد کرتے چلے جائیں، اور اس لیے بھی ہمارے دستور کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور دستور نے صراحتاً یہ ضمانت دی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنا سکے گی۔