چناب نگر کی ختم نبوت کانفرنس اور دینی حلقوں کی توقعات

   
۳۱ اکتوبر ۲۰۰۷ء

مخدوم العلماء حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم کا ایک گرامی نامہ اس وقت میرے سامنے ہے، جس میں انہوں نے ملک بھر کے علماء کرام سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ایک اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے۔ گرامی نامہ کا مضمون یہ ہے:

جناب واجب الاحترام علماء کرام زید مجدكم العالی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کو معلوم ہے کہ قادیانی، مرزائی اندر اندر مسلمانوں کو مرتد بنانے میں مصروف ہیں۔ میں آپ حضرات سے اللہ کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ مہینہ میں صرف ایک ہی دفعہ سہی اپنے خطبے میں صرف دس پندرہ منٹ تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور قادیانی مرزائی کے مکروہ چہرہ کے متعلق نوجوانوں کو آگاہ فرما دیا کریں، تاکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حق کو ادا کرنے میں خدا کے ہاں اجر کے مستحق بن سکیں۔ امید ہے آپ توجہ فرمائیں گے۔

والسلام (فقیر خان محمد عفی عنہ، خانقاہ سراجیہ)

حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم ہمارے ملک کے ان محترم اور بزرگ علماء کرام اور مشائخ عظام میں سے ہیں جن کی دینی خدمات، شرافت، جہدِ مسلسل اور علمی ثقاہت کے باعث کم و بیش ہر حلقہ میں ان کا احترام پایا جاتا ہے۔ کندیاں ضلع میانوالی کے قریب خانقاہ سراجیہ شریف کے سجادہ نشین ہیں، جو نقشبندی مجددی سلسلہ کی بڑی خانقاہوں میں سے ہے اور جس سے ہزاروں لوگوں نے فیض پایا ہے۔ اس خانقاہ کا ایک مخصوص روحانی تربیتی ماحول ہے جو وہاں جانے والوں کے لیے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کا باعث بنتا ہے اور ملک کے کسی نہ کسی حصے سے ہر وقت روحانی تربیت اور قلبی اطمینان کے متلاشی وہاں آ کر شادکام ہوتے رہے ہیں۔ مجھے بھی متعدد بار اس خانقاہ میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے، بلکہ اپنی طالب علمی کے دور میں جب میں نے مزارعت اور بٹائی کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون لکھا، جو غالباً ۱۹۶۸ء کے دوران ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور میں قسط وار شائع ہوا تھا، اس کی تیاری میں نے خانقاہ سراجیہ کی لائبریری میں بیٹھ کر کی تھی، جو ملک کی اہم لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔ دو تین روز خانقاہ شریف میں رہنے کا موقع ملا تھا، اس کی یاد ابھی تک ذہن میں تازہ ہے۔

حضرت مولانا خان محمد صاحب دامت برکاتہم سے میری نیاز مندی کا سلسلہ بھی بہت پرانا ہے اور ان کی شفقتوں اور دعاؤں سے ہمیشہ فیضیاب ہوتا ہوں۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر رہے ہیں اور جمعیت کے اجلاسوں میں ان کے ساتھ ملاقاتوں اور استفادے کا موقع ملتا رہا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک عرصہ سے امیر ہیں اور حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہ العزیز کے بعد تحریک ختم نبوت کے لیے تمام مکاتب فکر کی جماعتوں پر مشتمل کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو حضرت مولانا خان محمد دامت برکاتہم کو اس کا سربراہ چنا گیا، جبکہ مجھے ان کے ساتھ اس جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کا شرف حاصل ہوا۔ اس مجلس عمل میں تمام دینی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شامل ہیں اور اب بھی اس کا وجود ”ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے“ کے درجہ میں قائم ہے، جبکہ تحریک ختم نبوت کی بہت سی ضروریات کے حوالے سے ملک بھر کے دینی کارکن اس مجلس عمل کو دوبارہ متحرک بنانے کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر کے اشارۂ ابرو کے منتظر ہیں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی خدمات کا اپنا ایک دائرہ ہے۔ یہ جماعت قادیانیوں کے تعاقب اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے سدباب کے لیے امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے قائم کی تھی اور اسے باقاعدہ اور منظم جماعت کی شکل مجاہدِ ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی شبانہ روز محنت کے ذریعے ملی۔

ایک دور تھا جب پاکستان کے قیام کے بعد قادیانی اس ملک میں اقتدار کے خواب دیکھا کرتے تھے، عالمی طاقتوں کی مدد سے انہوں نے اس کے لیے ہوم ورک بھی کر لیا تھا اور وزارت خارجہ کے منصب پر فائز نامور قادیانی چودھری ظفر اللہ خان نے پاکستان میں اقتدار کے چشموں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تانے بانے بن لیے تھے کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت نے قادیانی اقتدار کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی یادداشتوں میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے کہ بھٹو مرحوم نے سزائے موت پر عمل درآمد سے چند دن پہلے جیل کی کال کوٹھری میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حوالے سے اپنے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قادیانی اصل میں یہ چاہتے تھے کہ انہیں پاکستان میں وہی مقام حاصل ہو جائے جو امریکا میں یہودیوں کو حاصل ہے۔ اس تذکرہ میں بھٹو مرحوم کا یہ تاثر بھی موجود ہے کہ وہ خود گنہگار مسلمان ہیں اور انہیں امید ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ شاید ان کے لیے نجات کا ذریعہ بن جائے۔

قادیانیوں نے اس کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور مسلسل اس تگ و دو میں لگے رہے کہ وہ پاکستان کی سیاست و معیشت میں وہ کردار حاصل کر سکیں جو امریکا میں یہودیوں کو حاصل ہے، لیکن مجلس تحفظ ختم نبوت اور اس کی تحریک پر ملک کی دیگر دینی جماعتیں ہمیشہ قادیانیوں کے اس کباب میں ہڈی بنتی رہی ہیں، حتیٰ کہ ایک وقت جب مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک پوتا ایم ایم احمد اقتدار کی آخری سیڑھی کے قریب پہنچ چکا تھا اور ملکی معیشت پر کنٹرول کا سارا جال اس کے ہاتھ میں آ چکا تھا کہ وہ اچانک ایوانِ صدر جاتے جاتے ہسپتال پہنچ گیا اور اس کا یہ خواب راستے میں چکنا چور ہو کر رہ گیا۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہر دور میں تحریک ختم نبوت کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے اور عوامی جلسوں سے لے کر عدالت عظمیٰ تک ہر سطح پر اس نے جنگ لڑی ہے۔ اس کی دعوت پر اس محاذ کے لیے تمام مکاتب فکر کی متحدہ مجلس عمل تشکیل پاتی رہی ہے اور کل جماعتی مجلس عمل تشکیل دے کر اس کے لیے سارے بنیادی کام عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہی سرانجام دیتی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ عالمی سطح پر بھی اور پاکستان میں بھی قادیانیوں کی سرگرمیوں کو پھر سے محسوس کیا جانے لگا ہے اور اس کا تذکرہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کے مذکورہ بالا مکتوب گرامی میں بھی موجود ہے، اس موقع پر ملک بھر کی دینی جماعتیں اور کارکن اس سلسلے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے کسی عملی پیش رفت کے منتظر ہیں اور تحریک ختم نبوت کا محاذ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر کی طرف رخ کیے مسلسل پکار رہا ہے کہ

؏ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

ابھی دو روز قبل مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں چند احباب جمع تھے، لندن سے ختم نبوت محاذ کے سرگرم رہنما الحاج عبد الرحمٰن باوا آئے ہوئے تھے۔ امراء رہنماؤں حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، جناب عبد اللطیف چیمہ اور میاں اویس احمد کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے رہنما مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا عبد الرؤف فاروقی موجود تھے اور راقم الحروف بھی تھا۔ اس موقع پر قادیانیوں کی تازہ سرگرمیاں زیر غور آئیں اور خاص طور پر لاہور کے جنرل ہسپتال کو، جو کہ ملک کے بڑے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے، نجکاری کے نام پر ایک ایسے ادارے کے سپرد کرنے کی کارروائی بھی گفتگو کا حصہ بنی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس ادارے کا اصل کنٹرول قادیانیوں کے ہاتھ میں ہے اور امریکا میں رہنے والے معروف قادیانی ڈاکٹر مبشر احمد اس کے کرتا دھرتا ہیں۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ایک امریکن فرم سینٹر فار انٹرنیشنل میڈیکل ایجوکیشن (CIME) کے ساتھ لاہور کے جنرل ہسپتال کی نجکاری کے معاملات طے پا رہے ہیں اور اس کی پشت پر قادیانی ڈاکٹروں کا ایک گروہ ہے جس کی سربراہی ڈاکٹر مبشر احمد کر رہے ہیں۔ اس پر ہسپتال کے ملازمین کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس نیٹ ورک پاکستان کے صدر ظفر جمال ایڈووکیٹ اور متعدد دینی تنظیموں نے بھی احتجاج کیا ہے۔ لیکن چونکہ ڈاکٹر مبشر احمد کے تعلقات پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ بہت قریبی ہیں، اس لیے اس مخالفت کے باوجود یہ معاملات بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم بھی اسی مجلس میں ہوا کہ لاہور کے ایک معروف ہسپتال ”ڈاکٹرز ہسپتال“ کا کنٹرول بھی قادیانیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس طرح مسلسل یہ بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ مختلف حوالوں سے قادیانیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

قادیانی گروہ اگر اپنے بارے میں پارلیمنٹ کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے غیر مسلم اقلیت کے طور پر اور اس کے دائرہ میں رہتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے اور کسی شعبہ میں پیشرفت کرتا ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ قادیانی امت اپنے بارے میں دستورِ پاکستان کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے بھی صاف انکاری ہے اور اس انحراف و بغاوت کے باوجود ہر قسم کی مراعات بھی حاصل کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے ہمارے مقتدر طبقات اس کی سرپرستی کر رہے ہیں اور عالمی سیکولر لابیوں کی پشت پناہی تو قادیانیوں کو پہلے سے ہی میسر تھی۔

اس پس منظر میں حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کے مکتوب گرامی کے حوالے سے قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیاں، جنرل ہسپتال کی نجکاری کے حوالے سے قادیانیوں کو لاہور میں ایک بہت بڑا اڈا فراہم کرنے کی بات ہو یا قادیانیوں کی دوسری سرگرمیاں ہوں، یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب جبکہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام یکم و دو نومبر کو چناب نگر میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اور اس موقع پر عالمی مجلس کی شوریٰ کا اجلاس بھی ہو گا، ہم اس کانفرنس کی بھرپور کامیابی کی دعا اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کی مکمل حمایت کے ساتھ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس موقع پر تحریک ختم نبوت کو ازسرنو منظم کرنے کے لیے کسی ٹھوس پروگرام کا ضرور اعلان کرے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter