(’’ایوان اسلام‘‘ کا مولانا زاہد الراشدی سے انٹرویو۔ انٹرویو نگار: جمیل الرحمان فاروقی۔)
سوال: دینی جماعتیں منتشر کیوں ہیں، سیاست اور عوام میں ان کا کردار مؤثر کیوں نہیں ہوا؟
جواب: ہمارے مشرقی معاشرے میں عوام کی مذہب کے ساتھ غیر متزلزل کمٹمنٹ ہے، معاشرے کا فرد عمل میں جیسا بھی ہو مگر خود کو دین و مذہب کے دائروں کا پابند سمجھتا ہے، اس میں بنیادی کردار علماء اور مذہبی جماعتوں کا ہے کہ انہوں نے آسمانی تعلیمات پر خود بھی حتی الوسع عمل کیا ہے اور عوام کو بھی جوڑے رکھا ہے۔ یہ ایک مستقل پہلو ہے کہ ’’کردار مؤثر کیوں نہیں ہوا‘‘ یہ مؤثر اور فیصلہ کن پوزیشن میں بھی ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔
میری نظر میں مذہبی جماعتوں کا منتشر ہونا ہی مؤثر کردار نہ ہونے کا بنیادی سبب ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہیں، چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنی ہوئی ہیں، سب کے راستے اور مقاصد جدا جدا ہیں، کاوشوں اور محنتوں کے میدان مختلف ہیں، اس طرح ان کی قوت بٹ کر رہ گئی ہے۔ وطن عزیز کو اس وقت جن مشکل ترین چیلنجز کا سامنا ہے ان کا ایک بہت بڑا سبب ہمارا باہمی انتشار اور افتراق بھی ہے۔ مسلکی بنیادوں پر تقسیم اور فرقہ واریت نے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جدوجہد اور مساعی کا مرکز و محور بھی یہ بن گیا ہے کہ ان فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دیتے رہیں۔ ہم من حیث القوم فرقہ واریت کی اس آگ میں جھلس رہے ہیں اور روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کو قریب لانے اور ان کے مابین پائیدار اتحاد قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں، اس ناکامی کے کئی اسباب ہیں:
اولاً، یہ کوشش سیاسی محرکات کی بنا پر کی گئیں جن کا مطمح نظر عارضی اور وقتی فوائد تھے جو کسی نہ کسی درجے میں حاصل بھی ہوئے، لیکن قوم کو اتحاد امت کے حقیقی ثمرات نہ مل سکے بلکہ کچھ وقت گزرنے کے بعد مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی وسعت قلبی، رواداری اور بالغ نظری کے حوالے سے جو حسن ظن قائم ہوا تھا اس کا تصور بھی دھندلانے لگا۔ بظاہر تو ایک پلیٹ فارم پر کچھ وقت کے لیے جمع تھے مگر ان کا دل نہ مل سکا صرف ہاتھ ملانے پر اکتفا کیا گیا۔
ثانیاً، اتحاد کی جو کوششیں مخصوص مواقع پر حکومت کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد کسی مخصوص صورتحال میں مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کو جمع کر کے یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اس معاملہ میں حکومت کے مؤید اور معاون ہیں۔ اس کی مثال حالیہ خودکش حملوں کے بعد کی جانے والی وہ حکومتیں کوششیں ہیں جو وقتاً فوقتاً خودکش حملوں کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کا اجتماعی موقف سامنے لانے کے لیے کی گئیں، جو نظریہ ضرورت کے تحت تھیں اور عارضی ثابت ہوئیں۔
ثالثاً، حکومتی سطح پر ہی کی جانے والی وہ کوششیں جو ہر سال مخصوص مذہبی ایام سے قبل اس لیے کی جاتی ہیں کہ ان ایام میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تصادم کے امکانات سے گریز کیا جا سکے۔ اس نوع کی کوششیں بھی کچھ نہ کچھ نتائج پیدا کرتی ہیں لیکن صاف ظاہر ہے کہ ان کوششوں کا ہدف ہی عارضی اور عبوری ہوتا ہے، لہٰذا ان کے ذریعے اتحاد امت کا خواب دیکھنا عبث ہے۔
رابعاً، بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً اتحاد امت کے لیے کوششیں کی گئیں، کچھ فارمولے بھی وضع کیے گئے لیکن عملاً ان پر کوئی قابل ذکر پیشرفت نہ ہو سکی۔ الحاصل اس وقت تک مذہبی طبقے کی آواز مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک یہ سب متحد نہ ہوں۔
سوال: آپ ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت کے اہم عہدوں پر فائز رہے، اس سے علیحدگی کی وجوہات کیا تھیں؟
جواب: جہاں تک میری جماعتی زندگی کا تعلق ہے اس کا مختصر خاکہ یہ ہے کہ ۱۹۶۵ء سے ۱۹۹۰ء تک مختلف سطحوں پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان میں ایک متحرک کردار کے طور پر مصروف عمل رہا ہوں۔ ۱۹۷۵ء سے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات تک ان کی ٹیم کے ایک فعال رکن کے طور پر مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور مرکزی ناظم انتخابات کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں۔ اور ۹ جماعتوں کے متحدہ سیاسی ملی محاذ (پاکستان قومی اتحاد) کے صوبائی سیکرٹری جنرل کے ساتھ ساتھ اس کی دستور کمیٹی، منشور کمیٹی اور پارلیمانی بورڈ میں جمعیۃ کی نمائندگی کا اعزاز مجھے حاصل رہا ہے۔
حضرت مفتی صاحب کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام دو دھڑوں حضرت درخواستیؒ گروپ اور مولانا فضل الرحمان گروپ میں تقسیم ہوئی تو میں درخواستی گروپ کا متحرک ترین کردار تھا۔ دونوں گروپوں میں سب سے بڑا تنازع ایم آر ڈی کے نام سے بننے والے سیاسی اتحاد میں جمعیۃ علماء اسلام کی پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی رفاقت کا تھا، جو درخواستی گروپ کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں تھی۔ کم و بیش ایک عشرے کی کشمکش کے بعد ایم آر ڈی کے ختم ہو جانے پر درخواستی گروپ اور فضل الرحمان گروپ دوبارہ اکٹھے ہوئے اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ مرکزی امیر اور مولانا فضل الرحمان سیکرٹری جنرل بن گئے تو مجھے متحدہ جمعیۃ علماء اسلام میں مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور مرکزی ناظم انتخابات کے طور پر ذمہ داریاں سونپ دی گئیں اور میں نے کچھ عرصہ اس حیثیت سے کام بھی کیا۔ لیکن سابقہ درخواستی گروپ کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق نے اس اتحاد کو قبول نہ کرتے ہوئے سمیع الحق گروپ کے نام سے اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھنا ضروری سمجھا تو میرے لیے اس صورتحال کو قبول کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ میں نے جمعیۃ علماء اسلام کی ابتدائی رکنیت برقرار رکھتے ہوئے اس کے تمام مناصب سے استعفٰی دے دیا، اور تب سے انتخابی اور علی سیاست سے کنارہ کش رہ کر فکری اور علمی محاذ پر نفاذ شریعت کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں۔
سوال: عالمی سطح پر فکری و نظریاتی کشمکش، قحط الرجال کے زمانے میں تو آپ جیسے دانشوروں کی قوم کو زیادہ ضرورت ہے، آپ کو غیر فعال نہیں ہونا چاہیے؟
جواب: جی ہاں، اس دوران مجھے مختلف اطراف اور دوستوں کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ میں عملی سیاست میں دوبارہ فعال ہو جاؤں لیکن میں صاف انکار کرتا آرہا ہوں، نجی محفلوں میں احباب کو ان کے استفسار پر اس کی وجوہات سے بھی آگاہ کرتا رہا ہوں۔ میرے دوبارہ فعال نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مگر اس کی سب سے بڑی وجہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کے الگ الگ سیاسی راستے ہیں اور دونوں جمعیتوں کا متحد نہ ہونا ہے۔ میں بہت سے بزرگوں کے ساتھ مل کر اس کے لیے کوشش کرتا رہا ہوں اور بڑے بڑے اکابر نے اس کے لیے مسلسل محنت کی ہے مگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا اور اب تو اس کی کوئی توقع بھی باقی نہیں رہی۔
گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے جمعیۃ کے ایک گروپ کا رخ نظریاتی اور تحریکی سیاست سے معروضی سیاست کی طرف مڑ گیا اور وہ اسی پر پختہ ہوتے جا رہے ہیں، مجھے اس طرز عمل سے شدید اختلاف ہے۔ ہماری اصل قوت تحریکی رہی ہے اور پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی اسی تحریکی قوت، اسٹریٹ پاور اور رائے عامہ کی نمائندگی کی خاطر ہوتی تھی۔ مگر اصل قوت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور محض پارلیمانی سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا گیا ہے۔ جو تحریکی قوت اور اسٹریٹ پاور کے بغیر بالکل بے وزن ہے اور اس سے نفاذ شریعت کی طرف عملی پیش قدمی کی توقع خوش فہمی بلکہ خود فریبی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
اصل المیہ میرے نزدیک یہ ہے کہ نفاذ شریعت کی جدوجہد کے طریق کار کے بارے میں ہم افراط و تفریط کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک طرف ہتھیار اٹھانے کی نوبت جا پہنچی ہے اور دوسری طرف پر اَمن تحریکی قوت سے بھی کنارہ کشی کر کے صرف پارلیمانی سیاست پر قناعت کر لی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ ہماری اصل قوت اسٹریٹ پاور اور پر اَمن تحریکی قوت ہے، جب تک ہم اس کی طرف واپس نہیں پلٹیں گے نفاذ شریعت کے مقصد میں نہ ہتھیار اٹھانے کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا اور نہ ہی پارلیمانی سیاست کے ذریعے ہم کچھ پیشرفت کر پائیں گے۔
دینی جدوجہد کے حوالہ سے تحریکی قوت کو منظم کرنے کے لیے کئی مراحل آئے ہیں اور اس کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی ہوئی ہیں، لیکن جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کا یہ خوف ہمیشہ آڑے آیا کہ ملک میں دینی میدان میں کسی بھی حوالے سے کوئی متبادل قیادت سامنے آ گئی تو ان کے لیے خطرات ہو سکتے ہیں۔ میری ان باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں کسی متبادل جماعت کا حامی ہوں، میرے ذہن میں غیر سیاسی دینی جماعت، عوامی قوت یا اتحاد کا مقصد متوازن یا متبادل قوت کو وجود میں لانا نہیں بلکہ ایک معاون قوت کو منظم کرنا ہے۔ ورنہ اگر متبادل قیادت یا متوازی جماعت کھڑی کرنے کا پروگرام ہو تو ذاتی طور پر میرے لیے اس کے امکانات بھی موجود ہیں اور بحمد اللہ تعالٰی مواقع بھی میسر ہیں، مگر میں نے ایسا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس لیے مولانا فضل الرحمان اور ان کے رفقاء سے ہی مسلسل عرض کر رہا ہوں کہ تحریکی قوت اور اسٹریٹ پاور کے بغیر محض پارلیمانی سیاست پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے مؤثر راستہ نہیں ہے۔ پارلیمانی سیاست کو عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور کی حمایت اور پشت پناہی میسر ہو گی تو وہ اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کر سکے گی، ورنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو اس وقت ہو رہا ہے۔
ماضی میں بھی یہ صورتحال رہی ہے کہ سیاسی میدان میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اپنے رفقاء کی ٹیم کے ساتھ پارلیمانی سیاست میں متحرک رہے ہیں۔ مگر غیر سیاسی دینی محاذ پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا عبد الستار تونسوی مدظلہ اور ان جیسے دیگر اکابر علماء کرام کی قیادت میں عوامی دباؤ کی قوت ان کی پشت پر رہی ہے۔ آج یہ عوامی قوت پارلیمانی سیاست کی پشت پر موجود نہیں ہے اور اس خلا کو پر کیے بغیر محض پارلیمانی سیاست کے ذریعے ملکی صورتحال میں کسی اصلاح اور ملکی نظام میں کسی تبدیلی کی امید کو میں محض خوش فہمی سمجھتا ہوں۔
سوال: اس دور میں مذہبی جماعتیں اسلامی نظام کے احیا کے لیے کونسا راستہ اختیار کریں؟
جواب: پاکستان کی بیشتر مذہبی جماعتیں صرف پریشر گروپ ہیں، جو مذہبی مکاتب فکر کی بنیاد پر جداگانہ تشخص کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ان کے پاس جب تک پریشر پاور ہو گی اپنے محدود دائرے میں کام کرتی رہیں گے اور قومی سیاست میں بھی اسی حد تک شریک رہیں گی۔ اس سے زیادہ یہ کوئی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ البتہ متحدہ سیاسی پلیٹ فارم قائم کر کے یہ ایک طاقتور پریشر گروپ کی صورت میں ملک میں مزید اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ اور خلاف اسلام امور کی روک تھام کے لیے زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جبکہ اس حوالے سے اصل ضرورت ایک ایسی سیاسی قوت کی ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پارٹی ممبر کے طور پر شریک ہوں۔ مختلف طبقات کے سرکردہ حضرات بھی اس کا حصہ ہوں اور سب مل کر ملک کی قومی سیاست میں اسلامی اقدار کی سربلندی کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔
دین اسلام کی اشاعت اور دفاع علماء کا فرض ہے، ہمارے اکابر نے ہر دور میں وقت کی زبان اور تقاضے کے مطابق اشاعت دین اور دفاع دین کا کام کیا ہے اور یہ مورچہ کبھی خالی نہیں ہونے دیا۔ آنے والا مشکل دور آرہا ہے جس میں علماء کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں، سب سے بڑی ضرورت فکر و نظر کے محاذ پر ہے اور اس کے بعد پاکستان کے اسلامی تشخص و اقدار کی بحالی، آئین کی عملداری، اور نفاذ شریعت کا معاملہ، ان سب کے لیے فروعی اختلافات اور فرقہ بندیوں سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے اور تمام مذہبی جماعتوں کو مل کر سیاسی پلیٹ فارم بنانا چاہیے جس کے ذریعے یہ لوگ کام کریں اور ان کا طاقتور پریشر گروپ ہو اور اس کا رعب قائم رہے۔ اقدام نہ سہی کم از کم دفاع کی حد تک تو کام مضبوط ہونا چاہیے۔ اس پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور قائدین پارٹی ممبر کے طور پر شریک ہوں اور قومی سیاست میں مشترکہ جدوجہد کریں۔ یہ متحدہ فورم قرارداد مقاصد کو بنیاد بنا کر آگے بڑھے اور نفاذ اسلام کے لیے کوششیں جاری رکھے۔
اگر تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہم نے سردمہری سے کام لیا اور نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت نہ کی، فکری اور نظریاتی اساس فراہم نہ کی تو آنے والی نسلیں دین سے دور ہو کر اندھیروں میں بھٹک جائیں گی اور ہم سب اس کے ذمہ دار مجرم ٹھہریں گے۔ اس دور میں پہلے سے بڑھ کر مذہبی جماعتوں کو متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔
سوال: اسلامی نظام اور خلافت کیا ہے؟
جواب: قرآن و سنت میں انسانی زندگی کے انفرادی، خاندانی، معاشرتی، قومی، اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں جو ہدایات و احکام موجود ہیں، ان کا مجموعہ اسلامی نظام ہے اور ان کے عملی نفاذ کا سسٹم ’’خلافت‘‘ کہلاتا ہے۔
سوال: اسلامی نظام کے نفاذ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: قرآن و سنت کے تمام احکام و قوانین ہر مسلمان کے لیے واجب الاتباع ہیں اور ان میں شخصی، خاندانی، یا معاشرتی قوانین کی تفریق نہیں ہے۔ اس لیے جس طرح ایک مسلمان شخص کے لیے نماز، روزہ اور عبادات کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح مسلمان سوسائٹی کے لیے اجتماعی احکام و قوانین پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور بحیثیت مسلمان سب اس کے پابند ہیں۔
سوال: اسلامی نظام کا کوئی خاص طریقہ کار ہے یا کوئی بھی مروجہ طریقہ انقلاب ہو، وہ اپنایا جا سکتا ہے؟
جواب: اسلامی نظام تو ایک اسلامی حکومت ہی نافذ کرے گی۔ جبکہ ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سب سے بہتر اور آئیڈیل طریق کار وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو باہمی مشورہ اور بحث و مباحثہ کے بعد اتفاق رائے سے خلیفہ منتخب کر کے اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد مختلف خلفائے راشدین کے انتخاب کے طریقے اور حضرات صحابہ کرامؓ کی اختیار کردہ متعدد صورتیں بھی اس طریق کار کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان کے لیے پہلے سے خلافت کا نظام اور سسٹم موجود ہونا ضروری ہے۔ آج کل چونکہ ازسرنو خلافت کے ڈھانچے کی تشکیل کا مرحلہ درپیش ہے، اس لیے حضرت صدیق اکبرؓ کے انتخاب والا طریقہ ہی اس کے لیے درست طریق کار ہے۔
سوال: اسلامی نظام نے ماضی میں انسانیت کو درپیش اہم مسائل کو کیسے حل کیا، اور آج کی پوزیشن کیا ہے؟
جواب: اسلامی نظام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس نے شخصی حکومت کے طریق کار کو ختم کر کے دستوری حکومت قائم کی جس کا نقطہ آغاز حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے یہ اعلانات ہیں کہ ہم اگر کتاب و سنت کے مطابق چلیں تو لوگوں پر ہماری اطاعت واجب ہے اور اگر قرآن و سنت سے انحراف کریں تو عوام کو ہماری اصلاح کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ یہ ان کی دینی ذمہ داری ہے۔
خلفائے راشدینؓ نے خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے نہ صرف پیش کیا بلکہ ہر وقت اپنے آپ کو عوامی احتساب کے دائرے میں رکھا اور ہر شہری کو یہ حق دیا کہ وہ ان کی کسی بات پر کسی وقت اور کسی جگہ بھی ٹوک سکتا ہے اور وہ اس کا جواب دینے کے پابند ہیں۔
خلفائے راشدینؓ نے عملی طور پر ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا نمونہ پیش کیا اور حکومت کو عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ دار قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی اور کفالت کی ذمہ داری بھی دی جس کا آج کی دنیا بھی اعتراف کر رہی ہے۔
خلفائے راشدینؓ نے حکمرانوں کو سادہ زندگی، قناعت اور غریب عوام کے ساتھ ان کی سطح پر رہنے کا خوگر بنایا اور صحیح معنوں میں ایک عوامی حکومت کا تصور پیش کیا۔
اسلامی نظام نے صحیح معنوں میں سوسائٹی کا تعلق اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ قائم کیا اور تمام تر طرزعمل اور پالیسیوں کی بنیاد خوف خدا اور آخرت کی جوابدہی پر رکھی۔
سوال: آپ کے نزدیک آج کے دور میں عالمی سطح پر بے چینی کے کیا اسباب ہیں اور انسانیت ان مسائل سے کیسے نکل سکتی ہے؟
جواب: آج کی دنیا اور انسانی سوسائٹی کا ایک بڑا اور مؤثر حصہ آسمانی تعلیمات اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کے احکام سے بیگانہ بلکہ باغی ہو چکا ہے۔ سوسائٹی کو وحی الٰہی اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت کی طرف واپس لانے کے لیے اس وقت دنیا کے پاس اسلامی نظام کے سوا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔
آج کی دنیا نے انسانی سوسائٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے: ایک قانون بنانے والے اور دوسرے وہ جن پر قانون نافذ ہوگا۔ اس تفریق کے منطقی نتائج اور منفی ثمرات کو تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا اور دنیا حکمران اور محکوم کے دائروں میں بدستور بٹی ہوئی ہے۔ اس کا حل صرف اسلام کے پاس ہے کہ قانون بنانے والا صرف ایک ہے اور تمام انسان اس ایک ذات کے بنائے ہوئے قوانین و احکام کے یکساں طور پر پابند ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی عالمی کشمکش اور اس کے بعد سود، منافع خوری اور سٹہ پر مبنی اور حلال و حرام سے بے نیاز مارکیٹ اکانومی نے جس خوفناک معاشی بحران سے دنیا کو دوچار کر دیا ہے اس کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ دنیا کو آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر حلال و حرام کے دائرے کی طرف واپس لایا جائے اور یکطرفہ منافع کی بجائے دو طرفہ منفعت اور عوامی مفاد پر مبنی معاشی اصولوں کو اختیار کیا جائے، جو اس وقت صرف اسلام کے پاس ہیں۔
صحیح معنوں میں ایک ویلفیئر ریاست کے قیام کے لیے آج بھی دنیا کے سامنے آئیڈیل صرف خلافت راشدہ بالخصوص حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی شخصیات ہیں، اور جزوی طور پر کچھ معاملات میں ان کی پیروی بھی کی جا رہی ہے، لیکن کسی نظام کے صرف جزوی پہلوؤں کو اختیار کر کے اس کے ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے بلکہ اس سے صحیح استفادہ کے لیے پورے سسٹم کو اپنانا ضروری ہوتا ہے۔
قومیتوں، علاقائیت اور لسانی عصبیتوں نے ایک بار پھر انسانی سوسائٹی پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور آج کی عالمی دنیا میں انسانی سوسائٹی کے معاملات پھر سے قوم اور ملک کے حوالہ سے طے ہو رہے ہیں۔ اسلام نے انہیں جاہلی قدریں قرار دے کر قوم، زبان اور ملک کے تصور کو صرف تعارف اور امتیاز کی حدود میں پابند کر دیا تھا اور نسل انسانی کو ان عصبیتوں کے استحصالی کردار سے عملاً نجات دلا دی تھی۔ آج پھر اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس سلسلہ میں صرف اسلام ہی کردار ادا کر سکتا ہے۔
سوال: اسلامی نظام یا خلافت کا کیا کوئی خاص حکومتی ماڈل ہوتا ہے؟ مثلاً شورٰی کے چند ممبران یا پارٹی اور پارلیمنٹری سسٹم، یا ایک حاکم وقت جو اپنے فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں خود کرتا ہو؟ آخر اسلامی حکومت کا ماڈل کیسا ہو گا؟
جواب: خلافت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہوتا بلکہ حکمرانی کے معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت و خلافت کرتا ہے۔ اور اس طرح وہ خود حکومت کرنے کی بجائے جناب نبی کریمؐ کے حق حکمرانی کو ان کی تعلیمات و ہدایات کے دائرے میں رہتے ہوئے نیابتاً استعمال کرتا ہے۔
خلیفہ کا انتخاب حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرح عوام کی اجتماعی رائے سے ہوتا ہے، عوام کا اعتماد و انتخاب ہی اس کے حق حکمرانی کی بنیاد ہے۔ وہ اپنی معاونت و مشاورت کے لیے اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد کا انتخاب کرے گا اور ان کے مشورہ سے حکومتی نظام چلائے گا۔ یہ طرز حکومت بظاہر شخصی ہے لیکن خلیفہ چونکہ قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کا پابند ہے اس لیے وہ اپنی ذاتی خواہش کی بنیاد پر کوئی کام کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ رعیت کے ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب خلیفہ سے کھلے بندوں باز پرس کا حق حاصل ہے اور وہ ہر شخص کو مطمئن کرنے کا پابند ہے۔ خلیفہ کے کسی بھی حکم کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور وہ عدالت کی حاضری اور جوابدہی سے مستثنٰی نہیں ہے۔
خلافت ان اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو گی مگر اس کی عملی تفصیلات اور طریق کار ہر زمانے میں اور ہر علاقے کے ماحول اور ضروریات کو دیکھ کر ارباب حل و عقد طے کریں گے۔ ہمارے نزدیک قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی نے جو قرارداد مقاصد منظور کی تھی اور پھر تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علمائے کرام نے جو ۲۲ دستوری نکات متفقہ طور پر دیے تھے، وہ آج کے دور میں اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بہترین بنیاد بن سکتے ہیں اور اس کا خلاصہ دو اصولوں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
(۱) حکومت کا قیام عوام کی رائے سے ہو گا۔
(۲) حکومت قرآن و سنت کے احکام کی پابند ہو گی۔
سوال: اسلامی نظام میں غیر مسلموں کو کیا حقوق یا فوائد حاصل ہیں؟
جواب: اسلامی نظام میں مسلمان ریاست کے غیر مسلم باشندوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ان کے مسلمان ریاست کا شہری قرار پانے کے لیے باہمی معاہدہ کی صورت میں طے ہو جائیں گے۔ مثلاً اس وقت پاکستان میں جو دستور نافذ ہے وہ غیر مسلم باشندوں کی رضامندی کے ساتھ طے پایا تھا اور ان کی شراکت کے ساتھ نافذ ہوا تھا۔ اس دستور کی حیثیت معاہدہ کی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم سوسائٹیاں معاہد ہیں اور انہیں اس طرز پر دستور میں طے شدہ تمام حقوق حاصل ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلم اکثریت اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی نئی نسل کو مذہبی تعلیم دینے اور اپنے مذہبی تشخص کے تحفظ کا پورا حق ہے۔ البتہ وہ ملک کے ریاستی نظریے کے خلاف کام کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور انہیں ملک کے نظریاتی تشخص کی نفی کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سوال: مسلم دنیا میں اسلامی نظام کیوں نافذ نہیں ہوا؟ اور اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں کیا بنیادی مشکلات ہیں اور ان کا کیا حل ہے؟
جواب: مسلم ممالک میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی رولنگ کلاس اور حکمران طبقات ہیں جن کی تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات اور ماحول میں نہیں ہوئی۔ ان کے مفادات مغرب کے ساتھ وابستہ ہیں، ان کی بود و باش اور طرز زندگی اسلامی نہیں ہے، اور اسلامی نظام کے نفاذ کو وہ خود اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس لیے اسلامی نظام کی مخالفت کا حوصلہ نہ ہونے کے باوجود وہ عملاً اس کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔
مسلم ممالک میں اسلامی نظام کے نافذ نہ ہونے کی دوسری بڑی وجہ موجودہ عالمی ماحول اور سسٹم ہے۔ موجودہ عالمی نظام جو اقوام متحدہ اور اس میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کی پالیسیوں اور خواہشات پر مرتب ہوا ہے اور چلایا جا رہا ہے، اس کی بنیاد ہی خلافت کی نفی اور انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی بے دخلی پر ہے۔ اس لیے موجودہ عالمی نظام انسانی سوسائٹی میں اسلامی نظام کی صورت میں آسمانی تعلیمات کی عملداری دوبارہ قائم ہونے کی مخالفت بلکہ مزاحمت کر رہا ہے اور اس کے لیے اپنے تمام وسائل اور توانائیاں صرف کر رہا ہے۔
مسلم ممالک میں اسلامی نظام کے نافذ نہ ہونے کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کے کا نفاذ چاہنے والے دینی حلقوں کی اکثریت آج کے معروضی حالات، رکاوٹوں، مشکلات اور مناسب طریق کار کے ادراک سے یا تو بہرہ ور نہیں ہے اور یا عمداً انہیں نظر انداز کر کے محض جذبات اور میسر طاقت کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے نتائج وہی ہو سکتے ہیں جو نظر آرہے ہیں۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کے درمیان مفاہمت و معاونت کی فضا موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کسی سطح پر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اسی طرح مسائل و معاملات کے تجزیہ، تحقیق اور منفی و مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ان کی روشنی میں ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کا کوئی ذوق دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
سوال: اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو عالمی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں وہ کونسی ہیں اور آپ کیا کسی کو صحیح معنوں میں کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں؟
جواب: بیشتر مسلم ممالک نوآبادیاتی دور سے گزرے ہیں۔ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال اور دوسرے ممالک نے اپنے دور تسلط میں ان مسلم ممالک میں مسلم سوسائٹی کے اجتماعی مزاج کو بگاڑنے پر زیادہ کام کیا ہے۔ اور ان ممالک کی آزادی کے بعد ان میں نوآبادیاتی نظام ابھی تک باقی ہے اور وہ معاشرتی مزاج کے بگاڑ کو درست کرنے کی طرف بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد جن طبقات نے نظام سنبھالا ہے وہ نوآبادیاتی نظام ہی کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھے جنہیں نظام کی تبدیلی میں اپنے لیے خطرات محسوس ہو رہے ہیں اور وہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر عملدرآمد میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن حکمران طبقات اور ریاستی ڈھانچے اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستان میں قرارداد مقاصد کی منظوری اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت کے ساتھ قرآن و سنت کے احکام کو نافذ کرنے اور خلافِ قرآن و سنت قوانین کی منسوخی کی جو دستوری ضمانت دی گئی ہے، اس کے بعد قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ میں کوئی اصولی و آئینی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ لیکن عالمی استعماری قوتوں کا دباؤ اور نوآبادیاتی نظام کے تسلسل کی وارث بیوروکریسی اپنے مفادات کی وجہ سے دستور کی اسلامی دفعات پر عملدرآمد نہیں ہونے دے رہی، اور پاکستان سمیت مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کی اب تک ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔
جبکہ موجودہ حالات میں جب تک اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہاں حلقے اپنی حکمت عملی اور طرزعمل پر نظرثانی کر کے معروضی حالات و ضروریات کو سامنے رکھ کر باہمی مشاورت و مفاہمت کے ساتھ کوئی مشترکہ حکمت عملی طے نہیں کرتے، تب تک مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کی کامیابی کے کوئی آثار بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ کوئی معجزہ ہو جائے تو یہ دنیا کے لیے خیر کا پیغام ہو گا۔
سوال: اسلامی نظام میں عورت کو کیا حقوق حاصل ہیں؟
جواب: اسلام میں عورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مرد کو ہیں، البتہ اس کی صنفی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حقوق و فرائض کا مرد سے امتیاز رکھا گیا ہے جو فطری طور پر ناگزیر ہے۔ اور سوسائٹی میں خاندان کے یونٹ کو برقرار رکھنے اور اسے استحکام دینے کے لیے خاندانی سسٹم میں مرد کی فوقیت اور سنیارٹی کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ادارہ برابر کے اختیارات کے حامل دو افراد کی سربراہی میں نہیں چل سکتا۔ جیسا کہ خاندانی نظام میں مرد کی سربراہی کی نفی کر کے مغربی دنیا اس کا خمیازہ خاندانی نظام کے بکھر جانے کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ چنانچہ صنفی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ناگزیر فرق و امتیاز سے ہٹ کر باقی تمام معاملات میں مرد اور عورت برابر ہیں اور دونوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ہم مغرب کی جانب سے آزادی اور حقوق کے نام پر چلائی جانے والی مہم کو محض دھوکہ دہی سمجھتے ہیں، ورنہ اسلام نے سب سے پہلے عورت کو معاشرے میں حقوق اور آزادی دی ہے۔
سوال: اسلام میں سیاست کا کیا تصور ہے؟ لسانی اور فرقے کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانا کیا درست ہے؟
جواب: بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس تھی مگر اب چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اس لیے سیاسی قیادت کی ذمہ داری علماء و خلفاء کو منتقل ہو گئی ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے میں جناب نبی اکرمؐ نے مسلمانوں کو خلافت کے نظام کے ساتھ وابستگی اور وفاداری کی تلقین بھی فرمائی ہے۔
اسلام کا سیاسی نظام ’’خلافت‘‘ کہلاتا ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مہاجرین، انصار اور خاندان نبوت کا اپنا اپنا سیاسی موقف الگ طور پر طے کرنا اور پھر صحابہ کرامؓ کے دور میں الگ الگ سیاسی گروہوں کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اسلامی نظام میں مختلف سیاسی گروہوں کی موجودگی کی مطلقاً نفی نہیں کی جا سکتی اور گروہی بنیاد پر سیاسی معاملات طے کرنا اسلامی نظام میں نامانوس نہیں ہے۔ البتہ ان کی بنیاد ’’تعاونوا علی البر والتقوٰی، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان‘‘ پر ہو گی اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے حوالے سے موافق اور مخالف دھڑوں کی آج کے مروجہ دور میں جو تقسیم پائی جاتی ہے اس کی گنجائش اسلامی نظام میں موجود دکھائی نہیں دیتی۔ ایک گروہ کی ہر حال میں حمایت اور دوسرے کی ہر صورت میں مخالفت کا تصور اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح مذہبی فرقہ بندی اور لسانیت کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانا بھی درست نہیں ہے۔
سوال: اسلامی نظام کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مذہبی جماعتیں اتحاد کیوں نہیں کرتیں؟ اتحاد کے راستے میں رکاوٹ کیا ہے؟
جواب: جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام کا تعلق ہے، دینی جماعتوں اور علماء کرام نے اس کے لیے مختلف مواقع پر اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اکابر علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا دستوری فیصلہ اور اسلامائزیشن کے سلسلہ میں ہونے والے اب تک کے بیشتر اقدامات تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے اتحاد اور دینی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی ہوئے ہیں۔ کم از کم پاکستان کی حد تک کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ نفاذ اسلام کی دستوری اور قانونی جدوجہد کے کسی ضروری مرحلہ میں دینی جماعتوں نے اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا ہو اور مشترکہ طور پر عوام کی رہنمائی نہ کی ہو۔
ہمارا المیہ اس سے آگے شروع ہوتا ہے کہ دینی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے اتحاد کے ذریعے جو مقاصد اور نتائج حاصل ہوتے ہیں انہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ طے شدہ پالیسی کے مطابق سبوتاژ کر دیتی ہے اور اس میں اسے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
سوال: موجودہ دور کی جمہوریت اور خلافت کا موازنہ کریں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ خلافت کے نظام میں ہی ترقی کی ہے۔ آج کی دنیا میں خلافت کے سسٹم کو پرانا سسٹم کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: جمہوریت انسان پر انسان کی حکمرانی کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ پارلیمنٹ کو بلاتفریق ہر قسم کا اختیار دے کر آسمانی تعلیمات کے نفاذ یا عدم نفاذ کو اسی کے دائرہ اختیار میں شامل کر دیا گیا ہے، اور اسے احکام خداوندی پر بھی نعوذ باللہ بالادستی دے دی گئی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس خلافت اگرچہ عوام کے اعتماد و اختیار کے ذریعے ہی تشکیل پاتی ہے لیکن اس میں خلیفہ، یا اس کی شورٰی ، یا پھر عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند رہنا پڑتا ہے اور اسلامی احکام سے انحراف کی اجازت نہیں ہوتی۔
مغرب نے جب بادشاہت، پاپائیت اور جاگیرداری پر مشتمل تکون کے صدیوں سے چلے آنے والے مظالم سے تنگ آ کر ان تین ظالم طبقوں کے گٹھ جوڑ کے خلاف بغاوت کی اور بادشاہت اور جاگیرداری کی طرح مذہب کو بھی معاشرتی زندگی سے بے دخل کر دیا، تو نئے مذہب بیزار نظام کی کامیابی کے لیے اس نے ضروری سمجھا کہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر خلافت عثمانیہ کو بھی راہ سے ہٹائے۔ چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلسل سازشیں کر کے اسے ختم کر دیا گیا اور آج بھی مغرب کے ایجنڈے میں سرفہرست یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں خلافت کے قیام اور شریعت کے نفاذ کو روکا جائے۔ کیونکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر کوئی ریاست و حکومت وجود میں آتی ہے اور کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے مغرب کے اس مذہب بیزار فلسفہ و نظام کی نفی ہو جائے گی جسے وہ دنیا بھر میں مسلط کرنے کی مسلسل تگ و دو کر رہا ہے۔
جبکہ مسلمانوں کے لیے آج بھی خلافت ہی واحد سیاسی نظام ہے جو پوری دنیائے اسلام کی اجتماعیت کا مرکز بن سکتا ہے اور اس کے زیر سایہ دنیا بھر کے مسلمان برکات و ثمرات کے ساتھ ساتھ دنیوی اقتدار اور ترقی سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔
سوال: میڈیا قوم میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بہت کام کر سکتا ہے، اس کے لیے ہمارے میڈیا میں کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
جواب: میڈیا اس وقت ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور قوم کی بہتری اور نئی نسل کی ذہن سازی اور تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی حوالہ سے اس کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ ہم اس وقت مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندو تہذیب و ثقافت کی دو طرفہ یلغار کی زد میں ہیں۔ ان دونوں ثقافتوں سے اسلامی ثقافت کے فرق و امتیاز کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے پروگراموں کو اس انداز میں پیش کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی ثقافت کو فروغ حاصل ہو اور نئی نسل کو ہندو اور مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچایا جا سکے۔
اسی طرح اسلامی اقدار و روایات اور احکام و قوانین پر آج کے عالمی فلسفہ و نظام بالخصوص انسانی حقوق کے حوالہ سے جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور شکوک و شبہات پھیلائے جا رہے ہیں، ان کا جواب اور آج کے عالمی تناظر میں اسلامی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے علمی و فکری نوعیت کے پروگرام پیش کیے جائیں اور مختلف مکاتب فکر کے ایسے سرکردہ علمائے کرام اور دانشوروں کو سامنے لایا جائے جو آج کے حالات اور تقاضوں سے باخبر ہوں اور آج کے اسلوب میں بات کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی نئی نسل کو ماضی سے وابستہ رکھنے کے لیے عظیم اسلامی شخصیات اور تحریکات کے بارے میں معلوماتی پروگرام پیش کیے جائیں۔
آج کے سیکولر میڈیا کی یہ مخصوص تکنیک ہے کہ اسلام اور اسلامی اقدار و روایات کے خلاف تو باشعور اور جدید اسلوب سے بہرہ ور افراد کو قوم کے سامنے لایا جاتا ہے، مگر ان کے جواب اور ان سے مکالمہ کے لیے جان بوجھ کر ایسی مذہبی شخصیات کو ان کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے جو تمام تر احترام کے باوجود آج کے حالات اور اسلوب سے واقف نہیں ہوتے۔ اس تکنیک کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں میڈیا کے دیندار حضرات کے ساتھ دینی اداروں اور دینی حلقوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا ادراک کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔