تحریکاتِ آزادی کا جہاد اور صدر جنرل پرویز مشرف

   
مارچ ۲۰۰۴ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ’’علماء و مشائخ کنونشن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اور بہت سی قابلِ توجہ باتیں کی ہیں وہاں مختلف مسلم حلقوں کی جہادی سرگرمیوں کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ سرگرمیاں دہشت گردی کے زمرہ میں آتی ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں جہاد کا اعلان صرف حکومت کا حق ہے اور پرائیویٹ طور پر جہاد کے نام سے کوئی عمل ان کے نزدیک اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

ہمارے خیال میں صدرِ محترم کا یہ کہنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ کسی ملک کے خلاف جہاد کا اعلان بلاشبہ حکومت ہی کا حق ہے اور حکومت کے سوا کسی فرد یا طبقے کو کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کے اعلان کا استحقاق حاصل نہیں ہے، لیکن مسلم معاشرہ پر مسلط ہونے والے کفر کا راستہ روکنا اور کفر و استعمار کے تسلط سے مسلم آبادی کی نجات کے لیے جدوجہد کرنا کبھی حکومت کی اجازت پر موقوف نہیں رہا۔ ہمارے ہاں فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کی جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں، جہاد کے پرائیویٹ فتووں کی بنیاد پر لڑی گئی ہیں:

  1. افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف کسی حکومت نے جہاد کا اعلان نہیں کیا تھا، یہ اعلان علماء کی طرف سے ہوا تھا جس کا نہ صرف افغان قوم نے ساتھ دیا بلکہ عالمِ اسلام نے ان کی حمایت کی اور خود پاکستانی حکومت اور فوج نے اس میں حصہ لیا۔
  2. اسی طرح فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور تسلط کے خلاف آزادی کی جدوجہد کسی حکومتی اعلان کی بنیاد پر نہیں لڑی جا رہی بلکہ پرائیویٹ جماعتیں ہیں جو جانفروشی کے جذبہ کے ساتھ اسرائیلی درندگی کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔
  3. جبکہ آزاد کشمیر کا موجودہ خطہ پرائیویٹ جہاد کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنا ہے، اور کشمیری عوام کی مسلح جنگِ آزادی جہاد ہی کے عنوان سے مسلسل جاری ہے۔

اس لیے یہ کہنا کہ حکومت کے اعلان کے بغیر جہاد نہیں ہو سکتا، ان تمام تحریکاتِ آزادی اور جنگ ہائے حریت کی نفی ہے، جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter