زلزلے کی تباہ کاریاں: آئندہ کی ترجیحات

   
۱۵ نومبر ۲۰۰۵ء

عید الفطر کے بعد آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے بعض زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور سے پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر شریک سفر تھے، بلکہ سارا سفر انہی کی گاڑی پر ہوا۔ گوجرانوالہ سے ڈاکٹر محمد رفیق میر ساتھ ہو گئے۔ کچھ ساتھی قاری صاحب کے ہمراہ بھی تھے، انہوں نے متاثرین کے لیے کچھ امدادی سامان مہیا کر رکھا تھا، جو ایک چھوٹے ٹرک میں تھا اور کچھ نقد رقم بھی ہمارے پاس تھی۔ ہم عید کے بعد تیسرے روز اتوار کو صبح آٹھ نو بجے کے لگ بھگ گوجرانوالہ سے روانہ ہوئے اور بدھ کو رات بارہ بجے گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔ اس دوران ہم نے آزاد کشمیر کے زلزلہ سے متاثر ہونے والے علاقوں میں سے راولا کوٹ، ارجہ، دھیر کوٹ، بیس بگلہ، باغ، تھب، ملوٹ، ہاڑی گہل، جھالہ، مظفر آباد اور صوبہ سرحد کے علاقوں گڑھی حبیب اللہ، بالا کوٹ اور مانسہرہ میں حاضری دی، زلزلے کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا، مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں، امدادی کام کرنے والے متعدد گروپوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور مستقبل کے امکانات پر سرکردہ حضرات سے تبادلہ خیالات کیا۔ سامان کا ٹرک ہم نے ہاڑی گہل میں مدرسہ امداد الاسلام کے مہتمم اور سابق ضلع قاضی مولانا قاضی بشیر احمد کے سپرد کیا، جو دارالعلوم کراچی اور الرشید ٹرسٹ کی امدادی سرگرمیوں کی سرپرستی اور نگرانی کر رہے ہیں، جبکہ نقد رقم زلزلہ سے زیادہ متاثر ہونے والے چند دینی مدارس اور علمائے کرام میں تھوڑی تھوڑی تقسیم کر دی۔

ضلع باغ کے علاقوں میں باغ کے ضلع مفتی مولانا مفتی عبدالشکور اور مظفر آباد میں حکومت آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر امور دینیہ مولانا مفتی محمد ابراہیم اور آل جموں و کشمیر جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الحی ہمارے ہمراہ تھے۔ ہم نے امدادی سرگرمیوں میں مصروف جن اداروں اور کیمپوں کا دورہ کیا، ان کی تفصیل یہ ہے:

  • باغ اور مظفر آباد میں الرشید ٹرسٹ کے امدادی کیمپ اور خیمہ بستیاں،
  • جماعت اسلامی کا امدادی کیمپ اور باغ اور مظفر آباد میں ہسپتال،
  • دارالعلوم کراچی کا ہاڑی گہل میں امدادی مرکز،
  • باغ میں اقوام متحدہ کا امدادی سنٹر،
  • باغ میں مسلم ہینڈز کا امدادی مرکز،
  • مظفر آباد میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا امدادی مرکز،
  • مظفر آباد میں ایم کیو ایم کا امدادی کیمپ،
  • بالا کوٹ میں اسلامک سٹوڈنٹس موومنٹ کا امدادی کیمپ،
  • بالا کوٹ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا امدادی کیمپ،
  • بالا کوٹ میں جامعہ اسلامیہ فریدیہ، اسلام آباد کا امدادی کیمپ،
  • یورپ کی سکھ برادری کے ایک ادارہ ”گلوبل لائنز گروپ “ کی طرف سے بالا کوٹ میں قائم کیا جانے والا امدادی کیمپ اور
  • مظفر آباد میں ”الرحمت ٹرسٹ“ کا امدادی کیمپ۔

جبکہ جن شخصیات سے ہم نے امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا، ان میں آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد عبد القیوم خان، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان، متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد کے سیکرٹری اطلاعات مولانا مفتی کفایت اللہ، باغ میں اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے انچارج جان مارک اور امدادی سرگرمیوں میں مصروف پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر شامل ہیں۔ زلزلے کی تباہ کاریوں کے بارے میں اس قدر تفصیلات قومی پریس کے ذریعہ سامنے آ چکی ہیں کہ ان کی تکرار یا ان میں کسی اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، البتہ امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے تاثرات و احساسات کے طور پر بہت کچھ کہنے کی گنجائش اور ضرورت موجود ہے اور انہی کے بارے میں کچھ گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

جہاں تک اس سانحہ میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام کی بیداری اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے جوق در جوق پہنچنے کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ملی اخوت اور قومی وحدت کا جذبہ ایک بار پھر زندہ ہو گیا ہے اور قوم کے مختلف طبقات نے مثالی کردار پیش کیا ہے، لیکن اس سلسلے میں چند حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

قوم میں وحدت و اخوت اور بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے کے اس جذبے کی بیداری کا ایک اہم سبب رمضان المبارک کا ماحول تھا کہ اس ماہ مبارک میں اصحابِ خیر عام طور پر صدقہ و خیرات کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آغاز میں ہی زلزلے کا سانحہ ہو گیا تو لوگوں کے اس جذبے کا رُخ ادھر کو مڑ گیا، جس کا مشاہدہ ہم سب نے کیا ہے۔ بلکہ اس حوالے سے دینی مدارس کو ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ لوگ چونکہ زکوٰۃ و صدقات کا زیادہ حصہ دینی مدارس کو دیتے ہیں اور رمضان المبارک کے آغاز سے ہی لوگوں کا رجحان دوسری طرف ہو گیا تھا، اس لیے بہت سے دینی مدارس کو اپنے اس سال کے بجٹ کا توازن برقرار رکھنے میں بہرحال دشواری رہے گی۔ یہ بات دینی مدارس کی طرف سے بطور شکوہ نہیں ہے کہ ان کے نزدیک بھی زلزلے سے متاثرہ خاندان اور افراد ہی اس موقع پر زیادہ مستحق تھے، لیکن یہ ایک واقعہ کا اظہار ہے کہ چونکہ دینی مدارس کا سالانہ بجٹ رمضان المبارک میں ہی تشکیل پاتا ہے، اس لیے مدارس کی ایک بڑی تعداد کو اپنے بجٹ کا توازن بحال کرنے کے لیے اب اگلے رمضان المبارک کا انتظار کرنا پڑے گا۔

زلزلہ کی تباہ کاریوں اور مصیبت زدہ خاندانوں اور افراد کی امداد کی طرف ملک کے عوام، بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو متوجہ کرنے میں قومی اور عالمی میڈیا کا بہت اہم کردار ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ میڈیا نے ہر سطح پر اس مصیبت عظمیٰ اور اس کے نقصانات اور تباہ کاریوں کو اجاگر کرنے اور اصحابِ خیر کو متاثرین کی مدد کے لیے ابھارنے کے لیے شاندار خدمت سرانجام دی ہے۔

ظاہر ہے کہ اب رمضان المبارک کا وہ ماحول نہیں رہا اور میڈیا کی ترجیحات بھی اس دائرے میں نہیں رہیں، اس لیے امداد کے لیے جوش و خروش کا وہ تسلسل قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ بات ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے کہ ہم کسی کام کے لیے وقتی جوش و خروش کے ساتھ اٹھتے ہیں اور انتہا تک جا پہنچتے ہیں، لیکن اس کے بعد اسی تیزی سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میں نے وہاں مختلف امدادی گروپوں کے رہنماؤں سے عرض کیا ہے کہ اب تک جو امداد آئی ہے وہ جوش و خروش کا نتیجہ تھی، لیکن اب آئندہ امدادی سرگرمیوں میں عوام کا تعاون حاصل کرنے کے لیے آپ حضرات کو باقاعدہ مہم چلانا ہو گی، بیداری برقرار رکھنے کے لیے محنت کرنا ہو گی اور اصحابِ خیر سے مسلسل رجوع کرنا ہو گا۔ کیونکہ زلزلے سے متاثر ہونے والوں کی آباد کاری اور دیگر بیسیوں مسائل سے نمٹنے کے لیے ابھی سالوں کا عرصہ درکار ہو گا۔ ہم لوگ اتنے تیز رفتار نہیں ہیں کہ مہینوں میں اس قسم کے مسائل کو نمٹا سکیں۔ یہ آباد کاری کئی سال لے گی اور اس کے لیے عوام کی مسلسل امداد کی ضرورت ہو گی۔

امدادی کام کرنے والے اداروں میں سے ہر ایک نے اپنے مزاج اور ترجیحات کے مطابق خوب کام کیا ہے اور بہت محنت کی ہے۔ کسی کے طریق کار سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے کام اور خلوص سے اختلاف ناانصافی کی بات ہو گی، مگر یہ سارا کام ہنگامی اور عبوری تھا اور آپس میں کسی رابطے کے بغیر تھا، اس لیے ہمیں امدادی سرگرمیوں میں وسعت اور تنوع تو خاصا دکھائی دیا ہے، مگر ترتیب اور ربط نظر نہیں آیا، جس کی وجہ سے بہت سے مسائل اور خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ مثلاً یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض لوگوں نے چار چار، پانچ پانچ کیمپوں سے امداد حاصل کی ہے اور بعض افراد یا خاندانوں کی کسی ایک ادارے تک رسائی نہیں ہو سکی اور وہ امداد سے بالکل محروم ہیں۔ اس لیے امدادی گروپوں اور اداروں کے ذمہ دار حضرات سے ہم نے ہر جگہ یہ عرض کیا ہے کہ اگر آپ حضرات، بالخصوص وہ امدادی ادارے جو مکمل بحالی تک مستقل طور پر یہاں کام کرنا چاہتے ہیں، آپس میں ربط و مشاورت کا نظام قائم کر لیں تو آپ کے کام کی افادیت بڑھ جائے گی اور بہت سی خرابیوں و کوتاہیوں سے بھی بچا جا سکے گا۔

آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے اس سلسلے میں کہا کہ سب اداروں کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچم کے ساتھ ایک نظم کے تحت کام کرنا چاہیے۔ میں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ اب عملاً ایسا ممکن نہیں ہے، سب لوگ اپنے اپنے پرچم کے نیچے کام کریں گے۔ آپ صرف ان کے درمیان ربط و مشاورت کا کوئی نظم قائم کرا دیں تو یہی بہت بڑی بات ہے۔ بس ایک دوسرے کے دائرہ کار اور سرگرمیوں سے آگاہ رہیں اور جہاں ضرورت ہو تقسیم کار کے لیے مشورہ کر لیا کریں۔

زلزلہ زدگان کی اس وقت سب سے اولین اور فوری ضرورت شیلٹر کی ہے۔ اس لیے کہ جو مکان گر گئے ہیں، وہ تو گر ہی گئے ہیں۔ جن کے ڈھانچے کھڑے ہیں، ان میں سے بھی اکثر رہائش کے قابل نہیں رہے اور جو تھوڑے بہت رہائش کے قابل ہیں، ان کے مکین خوف کی وجہ سے ان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بالخصوص برفباری کے علاقوں میں صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ اس وقت تک زیادہ زور انہیں خیمے مہیا کرنے پر دیا جاتا رہا ہے، مگر بارش اور برفباری کے موسم میں یہ خیمے بالکل بے کار ہو جائیں گے۔ متبادل شیلٹر کی صورت جس پر کم و بیش سب حضرات متفق ہیں اور ایک بریگیڈیئر صاحب سے بھی اس سلسلے میں تفصیلی بات ہوئی ہے، یہ ہے کہ گرے ہوئے مکانات کے ملبے میں خاصی لکڑی موجود ہے، اگر ان کے مالکان کو ملبہ کھودنے اور لکڑی نکالنے کے لیے ضروری اوزار فراہم کر دیے جائیں تو وہ ضرورت کے مطابق مکان کا ڈھانچہ کھڑا کر لیں گے۔ اس پر انہیں چھت کے لیے جستی چادریں فراہم کر دی جائیں تو وہ چھت ڈال کر سردیوں کا یہ موسم گزار سکتے ہیں، ورنہ سردار عتیق احمد خان کے بقول آنے والے برف باری کے موسم میں صرف آزاد کشمیر میں پندرہ بیس ہزار مزید ہلاکتوں کے خطرے کو کسی طرح نہیں ٹالا جا سکتا۔ مکانات کس مقدار میں زمین بوس اور ناقابل استعمال ہوئے ہیں، اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا مفتی کفایت اللہ نے مانسہرہ میں ہمیں بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کے سروے کے مطابق صرف ضلع مانسہرہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مکانات زمین بوس ہوئے ہیں، اس لیے امدادی کام کرنے والے اداروں اور ملک بھر کے اصحاب خیر کو اس طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔

زلزلے سے متاثر ہونے والے ہزاروں خاندانوں اور لاکھوں عوام کی آباد کاری اور بحالی کے سلسلے میں ترجیحات کے حوالے سے سب سے مختصر اور جامع بات باغ میں اقوام متحدہ کے امدادی مرکز کے انچارج جان مارک نے بتائی، جن کا تعلق فرانس سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی ضرورت شیلٹر کی ہے۔ اس کے بعد خوراک کی ضرورت ہے کہ ہزاروں خاندان سردیوں کے اس موسم میں خود خوراک مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد میڈیسن کی ضرورت ہے کہ زلزلے کے اثرات، سردی کی شدت، مناسب خوراک و رہائش نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور علاج معالجے کی سہولتوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے بعد ایجوکیشن کی بحالی کا مسئلہ ہے کہ ان علاقوں میں اکثر سکول و کالج تباہ ہو گئے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے نئے نظم کی ضرورت ہے۔

زلزلے کی تباہ کاریوں اور امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے چار روزہ دورے کے مشاہدات و تاثرات کے بہت سے پہلو ابھی باقی ہیں، جن پر آئندہ دو تین کالموں میں بات ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سرِدست اصحابِ خیر اور امدادی اداروں اور گروپوں سے یہ گزارش ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں میں منصوبہ بندی، باہمی ربط اور کام کی ترتیب و ترجیحات کے پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیں کہ وہ اسی صورت میں اس کام کو صحیح طور پر آگے بڑھا سکیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter