غربت ختم کرنے کے لیے سفارشات

   
تاریخ : 
اگست ۲۰۰۴ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۰ جولائی ۲۰۰۴ء کی ایک خبر کے مطابق پاکستان کے وزیر نجکاری ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بتایا ہے کہ غربت کے خاتمے اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے قائم کردہ وزیر اعظم کی ٹاسک فورس نے اپنی سفارشات پیش کر دی ہیں۔ وزیر موصوف نے ان سفارشات کی تفصیل نہیں بتائی البتہ ان کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ملک میں غربت کے خاتمہ میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کے لیے وزیر اعظم نے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی جس نے اپنی سفارشات پیش کر دی ہیں۔ ان سفارشات کے منظر عام پر آنے سے قبل ان کے بارے میں کچھ عرض نہیں کیا جا سکتا مگر ایک اصولی بات اس حوالہ سے ہم ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ غربت کے خاتمہ کے لیے سب سے پہلے ہمیں موجودہ نوآبادیاتی معاشی ڈھانچے اور جاگیردارانہ نظام کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ساری خرابیوں کی جڑیں اس نظام میں پیوست ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ مغرب کا معاشی نظام انسانی سوسائٹی کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اس نے مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے اس لیے ہمارے معاشی ماہرین کو چاہیے کہ وہ مغرب کے معاشی نظام کی پیروی کرنے کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک نیا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیں جو دوسری مسلم دنیا کے لیے بھی مثال بنے۔ لیکن ہمارے معاشی ماہرین نے بانیٔ پاکستان کی اس واضح ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے مغرب کے معاشی نظام کے ساتھ وابستگی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں وقف کیے رکھیں جس کی وجہ سے آج پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے اور ملک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اسلامی تاریخ میں بہت سے ایسے مراحل ملتے ہیں جب ہمارے حکمرانوں نے معاشی بدحالی پر قابو پایا اور عام شہریوں کو معاشی حقوق کا تحفظ فراہم کیا، پاکستان کے حکمران اور معاشی ماہرین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف ایک مرحلہ کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے صرف اڑھائی سالہ حکومت میں یہ صورت پیدا کر دی تھی کہ سوسائٹی میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے کوئی مستحق نہیں ملتا تھا اور تمام شہریوں کو زندگی کی ضروریات کی ضمانت اور تحفظ حاصل تھا۔ اس کی وجہ ان کے دو بنیادی اقدام تھے:

  1. ایک یہ کہ انہوں نے بیت المال اور سرکاری خزانے کو مخصوص اور مراعات یافتہ طبقوں کی اجارہ داری سے نکال کر عام لوگوں کی ضروریات کے لیے وقف کر دیا تھا اور حکمران طبقات کے پاس جمع ہوجانے والی سرکاری دولت کو واپس لے کر قومی خزانے میں داخل کر دیا تھا۔
  2. اور دوسرا یہ کہ انہوں نے عام لوگوں اور نچلے طبقوں پر لگائے جانے والے ٹیکسوں کو ختم کر دیا تھا۔

ہمارے نزدیک ملک میں معاشی بدحالی اور تفاوت کو ختم کرنے کا راستہ آج بھی یہی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے معاشی ماہرین راہنمائی کے لیے مغرب کو دیکھنے کی بجائے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مثالی ادوار سے عملی راہنمائی حاصل کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter