سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی نے ۲۲ جولائی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ:
’’عدالت عظمیٰ نے بمبئی کے ان سینکڑوں رقص خانوں کو کھلوا دیا ہے جنہیں مہاراشٹر سرکار نے ۲۰۰۵ء میں یہ کہہ کر بند کروا دیا تھا کہ ان ’’ڈانس بارز‘‘ میں رقص و سرور کے نام پر جنسی ایکٹ (چکلے) چلائے جاتے ہیں، بے ہودہ اور فحش حرکات کی جاتی ہیں، رقاصائیں انتہائی اشتعال انگیز پوشاکوں میں لوگوں کے سامنے آ کر بے شرمی کے مظاہرے کرتی ہیں جن سے تماش بینوں کی اخلاقیات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ رقص خانے عام سوسائٹی میں بھی اخلاقی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں، ان چیزوں پر جہاں دولت مند افراد اپنی دولت لٹا کر نفسیاتی تسکین کا سامان کرتے ہیں وہیں کم آمدنی والے افراد بھی ان میں ملوث ہو کر اپنے گھر اور خاندان برباد کر رہے ہیں۔ مہاراشٹر حکومت کے اس اقدام کے خلاف رقاصاؤں، ڈانس بارز کے مالکان اور شہری حقوق کے کچھ گروپوں نے بمبے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی، کورٹ نے ۲۰۰۶ء میں ریاستی سرکار کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا، ریاستی سرکار نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس نے ۱۶ جولائی کو اس کی اپیل مسترد کر کے ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس خبر سے بمبئی کے رقص خانوں کے مالکان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں رہا ۔‘‘
خبر کے مطابق رقص خانوں پر پابندی کے خلاف کورٹ میں جانے والوں نے جو موقف اختیار کیا اس میں کہا گیا ہے کہ:
’’ ان رقص خانوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد کی روزی روٹی وابستہ تھی، جن میں پچاس ہزار رقاصائیں ہیں، ان میں بہت سی ایسی ہیں جو اپنے پورے خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ ہیں، ان کے بے روزگار ہو جانے سے ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے، رقص خانوں کے دیگر کارکنوں اور ملازموں کا بھی یہی حال ہے، ان رقص خانوں کے ذریعے امیروں کی دولت کا کچھ حصہ ان غریبوں تک بھی پہنچ جاتا تھا اور اس طرح ان کی مدد ہو جاتی تھی۔‘‘
جبکہ سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اس طرز استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے فیصلہ کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ:
’’یہ بد نصیب (عورتیں) محض زندہ رہنے کے لیے اس پیشے میں بحالت مجبوری داخل ہوئی ہیں ۔‘‘
یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ سب کچھ کسی مغرب زدہ این جی او کی کسی رپورٹ کا حصہ نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والے بھارت کی سپریم کورٹ کے باقاعدہ فیصلہ میں شامل ہے۔ اسی سے آج کی دنیا کی اخلاقی سطح اور نفسیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مغرب نے فرد کی آزادی کے نام پر آسمانی تعلیمات سے انحراف اور انسانی اخلاقیات سے روگردانی کا جو دروازہ کھولا تھا اس نے انسانی معاشرہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے اور اس کے لیے دیے جانے والے دلائل کا مذہبی تعلیمات کے حوالہ سے جائزہ لیا جائے تو صرف اسلام نہیں بلکہ کوئی بھی آسمانی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا، حتٰی کہ ہندو مذہب اور معاشرت میں بھی اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، لیکن مذہب سے انحراف اور آسمانی تعلیمات سے بغاوت کا یہ ثمرہ ہے کہ بدکاری اور فحاشی کو روزگار اور کمائی کا ایک جائز ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اسلام سے قبل جاہلیت کے دور میں بھی رقص و سرود اور بدکاری کمائی کا ایک جائز ذریعہ تصور ہوتی تھی جسے اسلام نے بالکل ختم کر دیا تھا اور ان تمام رسوم و روایات کو جاہلیت قرار دے کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرہ کو ان سے عملاً پاک کیا تھا۔ مگر یہ جاہلیت اب پھر لبرٹی، ثقافت اور حقوق کے نام پر سوسائٹی میں قدم جماتی جا رہی ہے۔ اس لیے اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ قرآن کریم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات سے انسانیت کو پھر سے روشناس کرایا جائے کیونکہ اس کے سوا انسانی معاشرے کو اخلاق باختگی کی ان شرمناک روایات سے نجات دلانے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ بھارتی سپریم کورٹ سے ہمارا سوال ہے کہ اگر ڈاکوؤں کے چند گروہ اس کے پاس یہ دلیل لے کر آئیں کہ ان کے اس عمل سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور وہ اپنے ڈاکہ کی کمائی سے بہت سے غریب خاندانوں کی مدد بھی کرتے ہیں اس لیے ان کے اس پیشہ کو روزگار کا ایک جائز ذریعہ قرار دیا جائے تو کیا بھارتی سپریم کورٹ وہاں بھی یہ کہہ دے گی کہ:
’’یہ بد نصیب محض زندہ رہنے کے لیے اس پیشے میں بحالت مجبوری داخل ہوئے ہیں ۔‘‘