وراثت میں عورتوں کا حصہ اور عدالتِ عظمیٰ کے ریمارکس

   
۱۳ فروری ۲۰۰۶ء

روزنامہ پاکستان کی ۷ فروری ۲۰۰۶ء کی ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔ مرد ورثاء مختلف طریقوں سے ان کی جائیداد اپنے نام کرا لیتے ہیں۔ اسلام نے خواتین کے لیے وراثت میں حصہ مقرر کر رکھا ہے مگر خواتین اپنے رشتہ داروں کے زیر اثر خود ہی اپنے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں، جو حق سے دستبردار ہونے سے انکار کر دے اسے خاندان کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ ریمارکس گوجرانوالہ کی ایک خاتون رفیق بی بی کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کے کیس میں ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے دیے ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے یہ ریمارکس سو فیصد درست ہیں اور ہمارے اس اجتماعی معاشرتی رویے کی نشاندہی کرتے ہیں جو عورت کے حقوق کو دبا لینے کے بارے میں عمومی طور پر پایا جاتا ہے، اور عورت نہ صرف یہ کہ وراثت کے حق سے اکثر و بیشتر محروم رہتی ہے بلکہ اس کو مہر کی وہ رقم بھی نہیں ملتی جو نکاح کے موقع پر باہمی رضامندی اور خوشی سے طے کی جاتی ہے۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے تاریخی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’میں دو کمزوروں کے بارے میں بطور خاص وصیت کر رہا ہوں، ایک عورت اور دوسرا یتیم‘‘۔ اس ارشادِ نبویؐ میں عورت کی اسی کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسے اپنا جائز حق وصول کرنے میں پیش آتی ہے۔ اور اسی کی ایک صورت وہ معاشرتی دباؤ ہے جس کا ذکر سپریم کورٹ کے ان ریمارکس میں کیا گیا ہے۔

جاہلیت کے دور میں عورت کو سرے سے وراثت میں شریک نہیں سمجھا جاتا تھا اور مرنے والے کی وراثت اکثر وبیشتر اس کی نرینہ اولاد ہی سمیٹ جاتی تھی۔ اسلام نے اس کی اصلاح کی اور حکم دیا کہ عورت بھی وراثت میں حصہ دار ہے، اور قرآن کریم میں مختلف صورتوں میں عورتوں کے حصوں کا باقاعدہ تعین کر دیا گیا ہے۔ مثلاً خاوند فوت ہو جائے تو اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کو مرنے والے خاوند کی کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ملتا ہے، اور اولاد نہ ہو تو وہ چوتھے حصے کی حقدار قرار پاتی ہے۔ باپ کی وراثت میں لڑکا اور لڑکی دونوں حصہ دار ہیں، البتہ لڑکے کو لڑکی سے ڈبل حصہ ملتا ہے۔ اسی طرح بیٹے یا بیٹی کے فوت ہونے کی صورت میں ماں باپ زندہ ہوں تو وہ بھی اس کی وراثت میں حصہ دار ہیں۔ اور وراثت کے بہت سے حصے ایسے ہیں جنہیں قرآن کریم نے متعین صورت میں طے کر دیا ہے کہ ان میں ردوبدل کا سرے سے کسی کو اختیار ہی نہیں ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ بہت سی صورتوں میں قرآن کریم نے عورت کا حصہ مرد سے کم رکھا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ عورت پر مالی ذمہ داریاں نہیں ہیں، اور اکثر صورتوں میں اس پر کسی اور کی کفالت کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ خود اس کی کفالت بھی دوسروں کے ذمے ہے۔ اسلام نے عورت کو کمانے اور کفالت کی ذمہ داریوں سے بالکل فارغ کر کے اسے گھر کے اندرونی نظام کو سنبھالنے اور بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ اور چونکہ عورت پر مالی ذمہ داری کم ہے، اس لیے وراثت میں اس کا حصہ بھی کم ہے، لیکن ہمارے ہاں تو وہ بھی عورت کو نہیں ملتا اور اکثر و بیشتر وہ اپنے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔

ہمارے معاشرہ میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بیٹی کو شادی کے موقع پر جو جہیز دیا جاتا ہے وہ اس کا وراثت کا حق ہوتا ہے، اس لیے وہ باپ کے فوت ہونے کے بعد وراثت میں حقدار نہیں رہتی۔ یہ بات شرعی طور پر قطعاً غلط ہے۔ اول تو جہیز کا یہ تصور ہی غیر اسلامی ہے کہ لڑکی کو شادی کے موقع پر اتنا کچھ دیا جائے کہ باپ قرضے کے بوجھ تلے دبا رہے، اور غریب آدمی کے لیے اپنی بیٹیوں کو بیاہنا ہی عذاب بن جائے۔ جہیز کا شرعی طور پر اتنا ہی تصور ہے کہ شادی شدہ جوڑا ایک الگ گھر بسانے لگا ہے تو گھرداری کا تھوڑا بہت ضروری سامان اسے مہیا کر دیا جائے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو جو جہیز دیا تھا وہ اسی حوالے سے تھا۔ پھر لڑکی کو جو جہیز دیا جائے وہ وراثت کا متبادل نہیں ہے، کیونکہ شرعی مسئلہ ہے کہ باپ اپنی زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس کی حیثیت ہبہ اور عطیہ کی ہوتی ہے۔ اور اس میں جناب نبی اکرمؐ کی ہدایت ہے کہ باپ اپنی اولاد میں سے کسی کو اتنا نہ دے جس سے دوسری اولاد کی حق تلفی ہوتی ہو، لیکن یہ ہبہ اور عطیہ ہے جو وراثت میں شمار نہیں ہو گا۔

وراثت کا شرعی اصول ہے کہ مرنے والے کی مرتے وقت جو جائیداد اور ملکیت ہے، وہ قرضوں اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے بعد اس کے ورثاء کا اسی ترتیب اور تقسیم کے مطابق حق ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اکثر اوقات اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ بلکہ میں یہ بات عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے جس طرح صداقت کے ساتھ وراثت کے حصے متعین کر کے بتائے ہیں اور کسی شرعی حکم کی اتنی تفصیلات بیان نہیں کیں، لیکن ہم جتنی بے پروائی اس مسئلہ میں کرتے ہیں کسی اور مسئلہ میں نہیں کرتے۔ میرا اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اَسی فیصد عورتوں کو مہر کی رقم نہیں ملتی اور پچانوے فیصد عورتیں وراثت کے حق سے محروم رہ جاتی ہیں، بلکہ بعض عورتیں تو دونوں سے محروم رہتی ہیں۔ مثلاً ایک صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، انہوں نے ابھی تک اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا، او رنہ ہی بیوی اس مہر سے دستبردار ہوئی ہے، اس صورت میں یہ مہر مرنے والے کے ذمے قرض ہو گا۔ بیوی کو پہلے قرض کی مد میں اس کا مہر ملے گا، اس کے بعد قرضوں سے بچ رہنے والے ترکے سے اسے وراثت کا حصہ الگ ملے گا۔ لیکن وہ غریب ان میں سے کوئی حق بھی وصول نہیں کر پاتی۔

ہمارے ہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بھائی باہم مل کر بہنوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ وراثت میں اپنے حصے سے دستبردار ہو جائیں۔ اور اگر کوئی بہن اس کے لیے تیار نہ ہو تو ایک آسان جملہ کہہ دیا جاتا ہے ’’اگوں متھے لگنا ایں کہ نئیں؟‘‘۔ یعنی اس کے بعد ہمارے ساتھ ربط و تعلق باقی رکھنا چاہتی ہو یا نہیں؟ اگر اس کے بعد بھائی بہن والا تعلق رشتہ قائم رکھنا چاہتی ہو تو وراثت کے حصے سے دستبرداری لکھ دو۔ اور یہ تعلق اور میل جول منقطع کرنے پر راضی ہو تو اپنا حصہ لے لو۔ اس دھمکی کے بعد وہ کون سی بہن ہو گی جو اپنے حصے سے دستبرداری اختیار نہیں کرے گی۔ اس لیے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اس خاندانی اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے عورت خود ہی وراثت میں اپنے حصے سے دستبرداری کا کہہ دیتی ہے، حالانکہ یہ دل کی رضامندی سے نہیں ہوتی، اور خاندان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دستبرداری دباؤ کا نتیجہ ہے۔ لیکن کیا ایسی دستبرداری شرعاً بھی دستبرداری تصور ہوتی ہے، یہ بات غور طلب ہے۔ کیونکہ یہ شرعی اصول ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے کسی حق سے دباؤ کے تحت دستبردار نہ ہو، بشرطیکہ دباؤ ایسا ہو جسے وہ مسترد نہ کر سکتا ہو، تو ایسی دستبرداری سے اس کا حق ختم نہیں ہو جاتا، اور شرعاً اس کا استحقاق بدستور موجود رہتا ہے۔

ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے ہیں کہ جس عورت سے دستبرداری کے لیے کہا جا رہا ہے اس کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے، مثلاً زمین کی صورت میں نہ زمین اس کے نام پر ہے اور نہ ہی اس کا تصرف و قبضہ ہے، اس لیے وہ اگر دستبردار ہوئی بھی ہے تو کس چیز سے ہوئی ہے؟ زمین اس کے نام رجسٹری کرا کے انتقال کے کاغذات اس کے ہاتھ میں دے دو، پھر اس سے تقاضا کر وکہ وہ یہ زمین اپنے بھائیوں کو یا دوسرے وارثوں کو دے دے۔ ایسی صورت میں اگر وہ واپس کر دے تو یہ حقیقی دستبرداری تصور ہو گی۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اسے ملنا ملانا تو کچھ بھی نہیں ہے اور دستبرداری سے انکار کی صورت میں بھائیوں کی اور خاندان والوں کی ناراضگی مفت میں اس کے حصے میں آئے گی، ایسی صورت میں دستبرداری کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا۔

یہی معاملہ مہر کا بھی ہے۔ ایک غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے کہ نکاح کے موقع پر جو مہر مقرر ہوا، اس کی ادائیگی جھگڑے یا طلاق کی صورت میں ضروری ہے، عام حالات میں اس مہر کی ادائیگی ضروری نہیں ہے۔ یہ قطعی طور پر غلط بات ہے، اس لیے کہ نکاح کے بعد میاں بیوی آباد ہو جائیں اور حقوقِ زوجیت کا آغاز ہو جائے تو مہر کی رقم خاوند کے ذمے لازم ہو جاتی ہے۔ اور اس کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے کہ جب تک وہ بیوی کو اس کا مہر ادا نہیں کرے گا وہ اس کا مقروض رہے گا۔ اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ مہر کی رقم سوچ سمجھ کر مقرر کی جائے اور اس میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا جائے، اتنی کم نہ ہو کہ بیوی کے لیے عار اور طعنوں کا باعث بن جائے، اور اتنی زیادہ نہ ہو کہ خاوند کے لیے اسے ادا کرنا مشکل ہو جائے۔

ہمارے سماج کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ خاوند سہاگ کی رات بیوی سے مہر معاف کرنے کے لیے کہتا ہے اور وہ بے چاری شرما شرمی معافی کا لفظ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر وہ اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتی ہے؟ اسے معافی تصور کر کے خاوند صاحب خود کو مہر کی ذمہ داری سے فارغ تصور کر لیتے ہیں۔ یہ بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ یہاں بھی ہمارے مذکورہ بالا بزرگ کا یہ ارشاد ہے کہ مہر کی رقم اس کے تصرف اور قبضہ میں دے دو، اس کے بعد اگر وہ واپس کر دیتی ہے تو یہ دستبرداری تصور ہو گی، ورنہ کسی قسم کے دباؤ یا حیا و عار کی وجہ سے وہ دستبرداری شرعاً درست تصور نہیں ہو گی۔

الغرض سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم معاشرتی اور خاندانی مسئلہ کی طر ف قوم کو توجہ دلائی ہے، جو سماجی بھی ہے اور شرعی بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کرام، دانشور حضرات، دینی مراکز اور میڈیا اس سماجی المیہ کی طرف توجہ دیں اور پاکستانی معاشرہ میں عورت کو اس کے جائز حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد کی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter