روزنامہ جنگ لاہور ۱۷ نومبر ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق عمرہ کے لیے حجاز مقدس جانے والے ہزاروں پاکستانی واپسی کی سیٹیں کنفرم نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشانی کا شکار ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سے عمرہ پر جانے والے ہزاروں افراد تاحال جدہ ایئرپورٹ اور پی آئی اے کے دفتر کے باہر بے یار و مددگار بیٹھے ہیں جن کے لیے نہ تو جہاز میں واپسی کی سیٹ ہے اور نہ ہی انہیں بکنگ کے لیے پی آئی اے کے جدہ آفس میں داخل ہونے دیا جاتا ہے، سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو پی آئی اے کی ٹکٹیں ہاتھ میں لیے ایئرپورٹ کے باہر بیٹھے ہیں، ان کے پاس ہوٹلوں میں رہنے اور کھانے پینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں اور وہ لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں اور ایئرپورٹ کے باہر اپنے سامان پر ہی سو جاتے ہیں، ان میں خواتین اور بچے بھی ہیں، ادھر پی آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ ۸۰ فیصد مسافر واپسی کے لیے کنفرم بکنگ کروا کر گئے تھے جبکہ صرف ۲۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی واپسی کی بکنگ نہیں ہے اور ان کو لانے کے لیے پاکستان سے اضافی جہاز جدہ جا رہے ہیں۔
یہ خبر نئی نہیں ہے بلکہ ہر سال عمرہ سے واپسی پر رمضان المبارک کے آخر میں اس نوعیت کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں اور رمضان المبارک میں عمرہ کے لیے جانے والوں کو واپسی پر اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں یقیناً مسافروں کی اپنی بدنظمی کا بھی دخل ہوگا اور ہمارے قومی مزاج میں افراتفری کا جو عنصر ہے اس کا بھی اس میں حصہ ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ ۲۰ فیصد افراد کو واپسی کی کنفرم سیٹ کے بغیر سفر کی اجازت کیسے دی گئی ’ اور جب پی آئی اے کے حکام کو یہ معلوم تھا کہ قومی ایئرلائن کے ذریعہ عمرہ پر جانے والے پاکستانیوں میں سے ۲۰ فیصد کی واپسی کی سیٹیں کنفرم نہیں ہیں تو ان کی واپسی کے لیے اضافی جہازوں کا بروقت بندوبست کیوں نہیں کیا گیا اور جدہ کی سڑکوں پر دنیا کو ان پاکستانیوں کی بے بسی اور بدنظمی کا تماشہ دکھانے کا موقع کیوں فراہم کیا گیا ہے؟
ہمارے خیال میں اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری وزارت امور مذہبی اور قومی ایئرلائن پی آئی اے پر عائد ہوتی ہے جن کی بدنظمی کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی مذکورہ بالا صورتحال سے ہر سال دو چار ہوتے ہیں اور دنیا اس کا تماشہ دیکھتی ہے، ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے جدہ میں پھنسے ہوئے پاکستان واپس لانے کے لیے قومی ایئرلائن پی آئی اے کو اضافی جہاز مہیا کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یہ اچھی بات ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم سے ہم یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ کم و بیش ہر سال پیش آنے والے اس مسئلہ کے مستقل حل کی کوئی صورت سوچی جائے اور وزارت مذہبی امور اور پی آئی اے کے ذمہ دار حضرات کو پابند کیا جائے کہ وہ باہمی ربط و مشاورت سے اس مسئلہ کا کوئی معقول حل نکالیں تاکہ ہر سال ہزاروں پاکستانی جدہ کی سڑکوں پر اپنی پریشانی اور ملک کی بدنامی کی اس صورتحال سے نجات حاصل کر سکیں۔