کرسمس کے موقع پر مسیحی دنیا کے نام ایک پیغام

   
۲۵ دسمبر ۱۹۹۹ء

۲۵ دسمبر کا دن پوری دنیا میں مسیحی امت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے دن کے طور پر ’’کرسمس‘‘ کے نام سے مناتی ہے۔ اسی مناسبت سے سال بھر کے سب سے چھوٹے دنوں میں سے ہونے کے باوجود اسے ’’بڑا دن‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے مسیحی دنیا کی عالمی عید اور قومی تہوار کی حیثیت حاصل ہے۔ معروف مسیحی مصنف ایف ایس خیر اللہ اپنی کتاب ’’قاموس الکتاب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’کرسمس یوم ولادت مسیح کے سلسلے میں منایا جاتا ہے، چونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔

رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائیں ۲۵ دسمبر کو، مشرقی آرتھوڈکس کلیسا ۶ جنوری کو، اور آرمینیا کی کلیسا ۱۹ جنوری کو یہ دن مناتی ہے۔

کرسمس کے تہوار کا ۲۵ دسمبر ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہ فلسطین کے عہد میں ۳۳۵ عیسوی کو ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں تاہم جب سے یہ شروع ہوا یہ بڑا مقبول ہوا ہے۔ اگرچہ بعض رسومات جو مسیحی نہیں تھیں کرسمس کے نام سے منسوب کی گئی ہیں لیکن اب انہوں نے بھی مسیحی رنگ اپنا لیا ہے۔ مثلاً کرسمس ٹری (کرسمس کا درخت) سے اب یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔

یاد رہے کہ خداوند مسیح کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے ۲۰ مئی کو منایا جائے لیکن ۲۵ دسمبر کو پہلے پہل روما میں اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار جشن زحل کو (SATURANALIA) جو راس الجدی کے موقع پر ہوتا ہے، پس پشت ڈال کر اس کی جگہ خداوند مسیح کی سالگرہ منائی جائے۔‘‘

ہمیں اس سے غرض نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تاریخ ولادت کون سی ہے اور کرسمس کےحوالہ سے ان میں کون سی تاریخ ہے؟ تاہم ۲۵ دسمبر کو مسیحی دنیا کی غالب اکثریت یوم ولادت کے طور پر مناتی ہے اور اسے مسیحیوں کی عالمی عید کی حیثیت حاصل ہے اس لیے ہم دنیا بھر کی مسیحی امت اور خاص طور پر پاکستان کی مسیحی کمیونٹی کو اس موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں یعنی مسلمانوں میں عید کا تصور یہ ہے کہ اس دن روز مرہ کی عبادت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور سال کے باقی دنوں میں روزانہ باجماعت پڑھی جانے والی پانچ نمازوں کے ساتھ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن ایک چھٹی نماز بھی شامل ہو جاتی ہے جسے بڑے اہتمام اور ذوق و شوق کے ساتھ کھلے میدانوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ اور ان اجتماعات میں خطبہ دینے والے علماء کرام کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس دن کی مناسبت سے اپنے سامعین کو دینی رہنمائی کے حوالہ سے کوئی خاص پیغام دیں۔ اس لیے اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا بھر کے مسیحی حضرات کو بیسویں صدی کے آخری کرسمس کے موقع پر ایک خاص پیغام دینا چاہتا ہوں جو متعدد مسیحی رہنماؤں سے ذاتی ملاقاتوں کے موقع پر کئی بات ان کے گوش گزار کر چکا ہوں۔ مگر اب جی چاہتا ہے کہ صدی کے آخری بڑے دن کےحوالہ سے یہ پیغام پوری مسیحی دنیا کے لیے عمومی دعوت کے طور پر بھی پیش کیا جائے۔

وہ پیغام یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات، وحی الٰہی اور مذہبی احکام و قوانین کو نظر انداز کرنے اور پس پشت ڈال دینے کی عمومی روش نے پوری نسل انسانی کو نفسانی خواہشات کی پیروی، شخصی اور گروہی مفادات کے ٹکراؤ، عقل ناتمام کی اتباع اور ان کے نتیجے میں اخلاقی انارکی اور معاشرتی تباہی سے دوچار کر دیا ہے اور اس کی زیادہ تر ذمہ داری مسیحی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ سبق دنیا کو سب سے پہلی مسیحی قیادت نے پڑھایا تھا کہ سوسائٹی کے معاملات میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے اور نسل انسانی کی اجتماعی عقل اپنے معاملات طے کرنے کے لیے خود ہی آخری اتھارٹی ہے، اس لیے مذہبی قوانین اور دینی رہنماؤں کو اجتماعی معاملات سے الگ تھلگ رہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے مذہب اور کلیسا سے مسیحی دنیا کی عملی بغاوت کے ساتھ ہی دنیا کی صنعتی ترقی کی باگ ڈور اور سیاسی قیادت اسی مسیحی دنیا کے ہاتھ میں آگئی اور باقی دنیا اقتصادی، سیاسی اور صنعتی طور پر مسیحی دنیا کی دست نگر ہو گئی۔ اس لیے مسیحی قیادت نے مذہب اور مذہبی احکام سے بغاوت کا یہ فلسفہ دنیا بھر کی اقوام پر مسلط کرنا شروع کر دیا اور رفتہ رفتہ اسے عالمی کلچر کے طور پر صنعت و معیشت کی طاقت کے سہارے دنیا کے اکثر حصے میں پھیلا دیا گیا۔

خواہشات اور مفادات کے ٹکراؤ کے اس کلچر نے کسی ’’بالاتر قوت‘‘ کی ہدایات سے بے نیازی اور بے اعتنائی اختیار کر کے اپنا راستہ خود اپنی مرضی سے بنانا چاہا جس کے تلخ ثمرات آج سب کے سامنے ہیں کہ خاندانی نظام کی تباہی، ہوشربا معاشی عدم توازن اور ایک دوسرے پر بالادستی کی ہوس نے دنیا کے ہر باشعور شخص کو اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے اور کسی کو اس دلدل سے انسانی معاشرہ کو باہر نکالنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ فری اکانومی، فری سیکس اور فری سینس کے تصور نے اخلاق و اقدار کی تمام حدود کو پامال کر دیا ہے اور خود مسیحی دنیا کے مذہبی رہنما اس صورتحال پر بے بسی اور حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔

اس لیے مسیحی دنیا کے مذہبی قائدین سے گزارش ہے کہ وہ ان حالات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں، سوسائٹی کو مذہب اور مذہبی تعلیمات و قوانین کی طرف واپس لانے کا کوئی راستہ نکالیں اور آسمانی تعلیمات و احکام کے انسانی سوسائٹی کے ساتھ عملی تعلق اور اس کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنے کی منظم جدوجہد کریں۔ آسمانی تعلیمات تمام مذاہب میں مشترک ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد گرامی میں اس حقیقت کا یوں اظہار فرمایا ہے کہ

’’ہم انبیاء کرام کا گروہ آپس میں سوتیلے بھائی ہیں، مائیں ہماری الگ الگ ہیں مگر ہم سب کا باپ ایک ہے‘‘۔

محدثین کرام اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ عقائد و اخلاق کی بنیادی تعلیمات تمام آسمانی مذاہب کی مشترک ہیں، البتہ احکام و قوانین یعنی شریعت کے ضابطوں میں زمانے اور حالات کے لحاظ سے فرق ہے۔ اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نزدیک بھی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور محبوب شخصیت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اس حوالہ سے منفرد اظہار ہیں کہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور بغیر موت کے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے جہاں ابھی تک زندہ ہیں اور اسی زندگی کے ساتھ دوبارہ دنیا میں تشریف لانے والے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم انہیں سولی پر چڑھا کر اپنے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ ایک نبی اور رسول کے طور پر سوسائٹی میں ان کی تعلیمات و احکام کی عملداری چاہتے ہیں۔

چنانچہ مسیحی دنیا کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور ان کی شریعت کے احکام و قوانین کو سوسائٹی میں نافذ کرنے اور انہیں معاشرہ کے اجتماعی قوانین کا درجہ دینے کی بات کریں۔ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام بھی یہی ہے اور اب انسانی سوسائٹی کے پاس بھی آسمانی تعلیمات و احکام کی واپسی کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں رہ گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter