حق نواز کی پھانسی اور مذہبی انتہا پسندی

   
۶ مارچ ۲۰۰۱ء

لاہور میں ایران کے خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر آقائے صادق گنجی کے قتل کے جرم میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جھنگ کے مذہبی کارکن حق نواز کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے اور اسے اس کی وصیت کے مطابق جامعہ محمودیہ جھنگ میں سپاہ صحابہؓ پاکستان کے بانی مولانا حق نواز شہیدؒ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس پھانسی کو رکوانے کے لیے سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں نے ہر ممکن کوشش کی اور بعض دیگر دینی حلقوں نے بھی اس سلسلہ میں ان سے تعاون کیا لیکن ایسی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی اور پھانسی کا یہ عمل پروگرام کے مطابق تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔

پھانسی سے چند روز قبل ملک بھر میں سپاہ صحابہؓ کے ساتھ تعلق رکھنے والے سینکڑوں علماء کرام اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جو بدستور زیر حراست ہیں جبکہ پھانسی کے بعد بھی سپاہ صحابہؓ کے مظاہروں اور علماء و کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور بعض پرتشدد واقعات میں کئی اور جانیں بھی اس پھانسی کی نذر ہوگئی ہیں۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ عدالت میں جرم ثابت ہوا ہے جس پر موت کی سزا دی گئی ہے، اس سزا کی سپریم کورٹ تک کی عدالتوں نے توثیق کی ہے اس لیے حکومت کے اختیار میں نہیں تھا کہ پھانسی کو روک دیتی اور یہ اختیار صرف مقتول کے وارثوں کے پاس تھا کہ وہ معاف کریں یا سزا پر عملدرآمد کرائیں۔ دوسری طرف پھانسی رکوانے کے لیے سرگرم رہنماؤں اور حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے عجلت سے کام لیا ہے اور مقتول کے ورثاء تک رسائی حاصل کرنے اور ان سے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ورنہ یہ ممکن تھا کہ اگر آقائے صادق گنجی کے ورثاء سے رابطہ ہو جاتا تو انہیں معافی یا خون بہا پر راضی کر لیا جاتا مگر اس کی نوبت نہیں آئی اور حق نواز کو پھانسی دے دی گئی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق حق نواز نے آخری رات پرسکون گزاری، پھانسی سے قبل عبادت کی، خود چل کر پھانسی کے تختے تک پہنچا اور بعض رپورٹوں میں حق نواز کی زبانی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر آقائے صادق گنجی کو قتل کیا ہے جس پر اسے کوئی ندامت نہیں ہے کیونکہ اس کے بقول آقائے صادق گنجی نے امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کی شان میں گستاخی کی تھی جو اس کے لیے ناقابل برداشت تھی اس لیے وہ اس آخری حد تک جا پہنچا۔

جہاں تک مذہبی حوالہ سے کسی کو قتل کرنے کی بات ہے اس کی شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً کسی طرح بھی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس سے انارکی پھیلتی ہے، خانہ جنگی کی راہ ہموار ہوتی ہے، قانون کا نظام متاثر ہوتا ہے، قومی زندگی سبوتاژ ہوتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ سے لے کر علامہ عارف الحسینی اور ہمارے گوجرانوالہ کے علامہ شبیر نقوی ایڈووکیٹ تک جتنے لوگ بھی اس مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھے ہیں ان سب کا قتل ہمارے نزدیک یکساں طور پر قابل مذمت ہے اور کوئی باشعور شہری ان میں سے کسی ایک قتل کو بھی منفی نتائج کے حوالہ سے کسی دوسرے قتل سے کم قرار نہیں دے سکتا۔ لیکن اس پس منظر میں دو تین امور بطور خاص فکر انگیز حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور محب وطن حلقوں کے لیے ان سے صرف نظر کی ہمارے خیال میں مزید کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

  1. ایک یہ کہ ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی سنی شیعہ کشیدگی کا اعلیٰ سطح پر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہم اس سے قبل ان کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ طرفین کے جو سینکڑوں افراد قتل ہو چکے ہیں اور ابھی یہ مذموم سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا، ان سب واقعات کے عوامل و اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان واقعات کے پس منظر میں صرف سنی شیعہ کشمکش نہیں ہے بلکہ دوسرے عوامل بھی اس عمل میں بتدریج شامل ہوتے گئے ہیں اور بہت مؤثر ہو چکے ہیں حتیٰ کہ با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی مرحلہ پر (خدا کرے کہ) اہل سنت اور اہل تشیع کی ذمہ دار قیادت میں باہمی برداشت اور رواداری کا کوئی فارمولا طے ہو کر ماضی کے تلخ واقعات کو سمیٹنے کی بات طے پا جاتی ہے تو بھی دوسرے بعض عوامل کے زیادہ مؤثر ہونے کے باعث کسی باہمی مفاہمت کی کامیابی کے امکانات زیادہ واضح نہیں ہوں گے۔ اس لیے یہ اولین ضرورت ہے کہ اس کشیدگی کے اسباب و عوامل کی الگ الگ نشاندہی ہو اور تمام محرکات کا راستہ روکنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم اپنی سابقہ تجویز کا اعادہ کریں گے کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو کھلی انکوائری کے ذریعے سنی شیعہ تصادم کے محرکات اور اسباب و عوامل کی نشاندہی اور ایک دوسرے کے خلاف فریقین کے مقدمات کا ازسرنو جائزہ لے۔
  2. دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ کسی بھی فریق کے لیے اپنے مذہبی رہنماؤں کی توہین قابل برداشت نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کی سطح کے مذہبی مقتداؤں کی توہین کو جرم قرار دیتے ہوئے ان کی اہانت پر اسی سطح کی سنگین سزا نافذ نہیں ہوگی تو مشتعل نوجوانوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے نہیں روکا جا سکے گا اور اس طرح کے افسوسناک واقعات ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ فریقین کی اعلیٰ قیادت کو اعتماد میں لے کر حضرات صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے ناموس کے تحفظ کا قانون نافذ کر دیا جائے تاکہ کسی کے پاس قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
  3. تیسری گزارش یہ ہےکہ سنی شیعہ کشیدگی یا دیگر حوالوں سے ملک کی جو قیمتی اور ممتاز شخصیات دہشت گردی کی بھینٹ چڑھی ہیں ان کے قاتلوں کو تختہ دار تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔ مثلاً حکیم محمد سعیدؒ، محمد صلاح الدینؒ، مولانا محمد عبد اللہؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، مولانا حق نواز جھنگویؒ، علامہ عارف الحسینیؒ، علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، مولانا انیس الرحمان درخواستیؒ، مولانا حبیب اللہ مختارؒ اور کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات جنہیں دہشت گردوں نے درندگی اور وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، یا وہ کسی بھی مذہبی، لسانی، علاقائی اور گروہی انتہاپسندی کا شکار ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان کا آقائے صادق گنجی کے قاتل کو تختہ دار تک پہنچانے کا دعویٰ بجا مگر یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ سینکڑوں مقتولین میں سے صرف ایک کا قاتل پھانسی کے پھندے تک پہنچا ہے اور باقیوں کے قاتلوں کے بارے میں دور دور تک اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے اگر حکومت قانونی نظام پر اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے اور اس تاثر سے بچنا چاہتی ہے کہ یہ سب کچھ بیرونی دباؤ کی وجہ سے ہوا ہے تو اسے مذکورہ بالا شخصیات کے قاتلوں کو بھی اسی اہتمام اور توجہ کے ساتھ تختہ دار تک پہنچانا ہوگا جس کا مظاہرہ حق نواز کے بارے میں کیا گیا ہے۔ ورنہ قانونی نظام کی کارفرمائی کی بجائے بیرونی دباؤ کی عملداری کے تاثر کو روکا نہیں جا سکے گا۔ اور یہ بات ملک کے فرقہ وارانہ امن کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ بہتر کون کر سکتا ہے؟
   
2016ء سے
Flag Counter