ماہِ رواں کی پانچ تاریخ کو مجلسِ احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ حضرات کا ایک مشترکہ اجلاس متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کی دعوت پر امیر احرار پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء اسلام، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث، پاکستان شریعت کونسل، خاکسار تحریک، مجلس احرار اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، ملت اسلامیہ پاکستان اور دیگر جماعتوں کے ذمہ دار حضرات نے شرکت کی۔
اجلاس کا ایجنڈا توہینِ رسالتؐ اور امتناع قادیانیت کے قوانین کے حوالہ سے ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیانات پر غوروخوض تھا۔ جن سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی دستوری دفعہ اور انہیں اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنے کے قانون کے ساتھ ساتھ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو ختم کرانے کے لیے بین الاقوامی لابیاں جس ایجنڈے پر ایک عرصہ سے کام کر رہی ہیں اس کو عملی طور پر آگے بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کی جا رہی ہے۔ کیونکہ الطاف حسین اور سلمان تاثیر دونوں ذمہ دار حضرات ہیں اور حکومتی اتحاد کے اہم راہنما ہیں، وہ کوئی ایسی بات جس کا تعلق براہ راست پبلک کے جذبات و احساسات سے ہو، سوچے سمجھے بغیر نہیں کہہ سکتے۔
اس موقع پر مختلف راہنماؤں کی گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ مسئلہ صرف ان دو قوانین تک محدود نہیں ہے بلکہ دستور میں ترامیم کے لیے جو تجاویز آئی ہیں ان میں قرارداد مقاصد کو غیر مؤثر بنانے اور اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے کی دفعات کو گول مول کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں اور اس کے لیے ہوم ورک اور لابنگ کا کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ اس بنا پر متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی نے رائے عامہ کو متوجہ کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں علماء اور دینی کارکنوں کے کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دستور کی اسلامی دفعات بشمول توہین رسالت کی سزا اور امتناع قادیانیت آرڈیننس کو چھیڑنے سے گریز کرے اور اس سلسلہ میں ملک کی دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے۔ بصورت دیگر اسے ماضی کی طرح اب بھی شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اس سے چند روز بعد مجھے گوجرانوالہ کے مولانا حافظ محمد عارف اور مولانا ضیاء الرحمان کے ہمراہ منصورہ لاہور جانے کا موقع ملا، مقصد اسی صورتحال پر وہاں کے ذمہ دار حضرات سے گفتگو تھا۔ ہماری ملاقات مولانا عبد المالک، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور جناب محمد انور گوندل سے ہوئی، ہم نے دستوری کام کے سلسلہ میں قومی اسمبلی کی قائم کردہ دستوری کمیٹی میں ہونے والی پیشرفت کے حوالہ سے صلاح و مشورہ کیا اور اس مہم کا جائزہ لیا جو سیکولر حلقوں کی طرف سے دستور کی اسلامی دفعات کو ختم کرانے کے لیے مختلف سطحوں پر مسلسل جاری ہے۔ مشاورت میں یہ بات طے پائی کہ اس سلسلہ میں عوامی اجتماعات اور علمائے کرام کے کنونشنوں کی فوری ضرورت ہے تاکہ انہیں معروضی صورتحال سے آگاہ کیا جائے اور مستقبل قریب میں پیش آنے والے متوقع خدشات کے سدباب کے لیے تیار کیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس سے کہیں زیادہ یہ بھی ضروری ہے کہ دستوری ترامیم کے لیے مختلف حلقوں کی طرف سے پارلیمنٹ کی دستوری کمیٹی کے پاس بھیجی جانے والی تجاویز اور ان پر اب تک ہونے والے کام کے بارے میں ایک بریفنگ رپورٹ تیار کی جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ دینی جماعتوں، راہنماؤں اور علمائے کرام تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ معروضی حالات سے واقف ہو کر اس جدوجہد میں اپنا حصہ مؤثر طور پر ڈالنے کا اہتمام کر سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حلقوں میں کسی کام کے لیے بروقت تیاری کا ذوق نہیں ہے اور اسے قبل از وقت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ پوری تیاری، ہوم ورک، پیپر ورک ور لابنگ کے بغیر کام کرنے کے تلخ نتائج ہم کئی دفعہ بھگت چکے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارا یعنی دینی حلقوں کا مزاج یہ ہے کہ جب تک کوئی کام سر پر نہ پڑ جائے ہم اس کے لیے سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
اس پس منظر میں ۱۵ اکتوبر سے چناب نگر (سابق ربوہ) میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ سالانہ ختم نبوت کانفرنس عام حالات کی بہ نسبت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے اور ملک بھر کے دینی کارکنوں کو امید ہونے لگی ہے کہ یہ کانفرنس اس سلسلہ میں عوام میں بیداری پیدا کرنے اور علماء اور دینی کارکنوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو تحریک ختم نبوت کے محاذ پر مرکزی مورچے کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے امیر مخدوم العلماء حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم اس وقت ملک کی بزرگ ترین شخصیت ہونے کے حوالہ سے ملک بھر کے علمائے کرام اور دینی کارکنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ ہماری ہر وقت یہ دعا رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائیں اور صحت و عافیت کے ساتھ ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
جہاں تک دستوری ترامیم اور ان کے لیے مختلف جماعتوں کی طرف سے قومی اسمبلی کی دستوری کمیٹی کو بھیجی جانے والی تجاویز کا تعلق ہے اس کے بارے میں بریفنگ رپورٹ مرتب کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے قبول کی ہے جو امید ہے کہ چند روز تک ہمیں مل جائے گی اور اس سلسلہ میں ہم ممتاز اہل حدیث راہنما مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی اور متحدہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف ملک سے بھی مشاورت کر چکے ہیں، جبکہ جامعہ نعیمیہ لاہور کے سربراہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی صاحب سے چند روز میں ملنے کا پروگرام ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس سلسلہ میں پاکستان شریعت کونسل نے بھی اپنے محدود دائرہ کار میں پیشرفت کا فیصلہ کیا ہے اور ۵ نومبر کو گوجرانوالہ میں صوبائی سطح پر علماء کرام اور دینی کارکنوں کا ایک کنونشن طلب کرنے کا پروگرام طے پایا ہے جس میں مرکزی امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی شرکت فرمائیں گے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ اس موقع پر شرکاء کو نفاذ شریعت کے سلسلہ میں ملک میں اب تک ہونے والی پیشرفت، دستور کی اسلامی دفعات کے پس منظر، موجودہ معروضی صورتحال اور مستقبل کے خدشات و خطرات اور امکانات کے حوالہ سے تفصیلی طور پر بریف کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس حوالہ سے ملک بھر کی تمام مکاتب فکر کی دینی جماعتوں، علماء کرام، خطباء کرام، دینی کارکنوں اور اصحابِ دانش سے درخواست ہے کہ وہ صورتحال سے بے خبر رہنے پر قناعت نہ کریں بلکہ پوری طرح باخبر ہو کر مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کریں۔