سوسائٹی اور دینی مدارس کے درمیان ربط کی ضرورت

   
۲۲ مارچ ۲۰۱۶ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام ۳ اپریل کو لاہور میں منعقد ہونے والی ’’استحکام پاکستان کانفرنس‘‘ کے لیے ملک بھر میں تیاریاں جاری ہیں اور مختلف سطح پر اس کے لیے اجلاس ہو رہے ہیں۔ ۲۲ مارچ کو گوجرانوالہ ضلع کے دینی مدارس کے منتظمین اور دیگر ذمہ دار حضرات کا اجلاس مدرسہ اشرف العلوم میں مولانا مفتی نعیم اللہ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ضلع گوجرانوالہ سے دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور معاونین کو منظم طریقے سے کانفرنس تک لے جانے کی حکمت عملی اور پروگرام کا جائزہ لیا گیا۔ مجھے اس موقع پر کانفرنس کے مقاصد اور دیگر امور کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کرنے کا کہا گیا، ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ دینی مدارس اس وقت جس جدوجہد میں مصروف ہیں اور ان کو جس طرح کی مخالفتوں، رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے اس کے بنیادی اسباب و عوامل کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس کے اس نظام نے اب سے ڈیڑھ سو برس قبل ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی تھی جو مغل حکومت کے خاتمہ اور برطانوی حکومت کے استعماری تسلط کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی و تعلیمی ماحول میں پیدا ہوگیا تھا۔ درس نظامی کا پرانا نظام مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا، دینی مدارس بند ہو گئے تھے، قرآن و حدیث اور عربی و فارسی کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ منقطع ہو کر رہ گیا تھا اور خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر دینی تعلیم کا کوئی نظام قائم نہ ہوا تو نہ صرف مساجد و مکاتب کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا بلکہ عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق بھی اسباب کی دنیا میں باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ دین کی بنیادی تعلیم یعنی قرآن، حدیث، فقہ اور عربی و فارسی کی تعلیم و تدریس کو باقی رکھنے کے لیے چند اللہ والوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں امدادِ باہمی کی بنیاد پر ان مدارس کا آغاز کیا جو آج پوری دنیا میں منظم تعلیمی نظام کے طور پر مصروف عمل ہے۔ اس تعلیمی نظام نے بنیادی طور پر مسلم معاشرہ میں یہ کردار ادا کیا کہ:

  • عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھا،
  • مسجد و مدرسہ کو آباد رکھنے کے لیے رجال کار فراہم کیے،
  • وعظ و نصیحت، اصلاح و ارشاد اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے معاشرہ میں عمومی دینی ماحول کو برقرار رکھا،
  • اور مسلمانوں کے عقائد و روایات کی حفاظت کی۔

جس کی وجہ سے مغرب کی وہ ثقافت اور تہذیب جو صنعتی انقلاب اور عسکری قوت کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلتی جا رہی تھی اسے مسلم معاشرہ میں قدم جمانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اور مغرب اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے باوجود ہمارے عمومی معاشرتی مذہبی ماحول، خاص طور پر خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مغرب کا سیکولر دانشور یہ سمجھتا ہے کہ سوسائٹی سے مذہب کو لاتعلق کر دینے کا فلسفہ دنیا کے دیگر مذاہب مثلاً ہندومت، بدھ مت اور مسیحیت کے عمومی ماحول میں تو قبول کر لیا گیا ہے جیسا کہ ان مذاہب کی اکثریتی آبادیوں میں ان کے ریاستی و حکومتی اداروں کا مذہب سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا، مگر عالم اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں وہ مقتدر طبقات اور رولنگ کلاس کو اپنے ڈھب پر لانے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں مگر دنیا میں کسی جگہ بھی مسلم معاشرہ کی عوامی اکثریت کو متاثر کرنے میں انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ چنانچہ مغرب کے سیکولر دانشور اپنی اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ مدارس کو سمجھتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک بڑے اخبار دی انڈیپینڈنٹ نے اس حوالہ سے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں ’’شر‘‘ کے بڑے سرچشمے جنوبی ایشیا کے دینی مدارس ہیں۔ ان کے نزدیک سوسائٹی کی مذہبی اقدار کی طرف واپسی کا سفر شر کہلاتا ہے۔ رپورٹ میں اس شر کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ جنوبی ایشیا کے دینی مدارس کو قرار دیا گیا۔ اسی رپورٹ کے ساتھ اخبار میں دو تصویریں بھی شائع کی گئیں۔ ایک دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث کی اور دوسری بستی نظام الدین دہلی کے تبلیغی مرکز کی۔ اور ان کے نیچے لکھا گیا کہ شر کے سب سے بڑے سرچشمے یہ دو مرکز ہیں۔ میں نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس زمانہ میں کہا اور لکھا تھا کہ یہ بات بالکل درست ہے، اگر معاشرہ کو دین و مذہب کی طرف واپس لانا شر ہے تو یہ شر فی الواقع دینی مدارس کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے اور یہ دونوں مرکز اس کے سرچشمہ کی حیثیت رکھتے ہیں، صرف ایک فرق کے ساتھ کہ ان میں ایک ڈسٹری بیوٹر ہے اور دوسرا مینوفیکچرر ہے۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارا اصل قصور اور ہمارے خلاف عالمی استعمار کی مسلسل کارروائیوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس مسلم معاشرہ میں مغرب کے لادینی بلکہ مذہب بیزار فلسفہ و ثقافت کے فروغ و تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔

مدارس کے تحفظ و دفاع اور انہیں ختم یا کمزور کر دینے کی یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا میں تہذیبی کشمکش باقی ہے، جو اس وقت مغرب کی سیکولر دانش اور عالم اسلام کے دینی حلقوں کے درمیان موجود ہے۔ اس فکری جنگ میں عالمی سیکولر استعمار اور مسلم معاشروں میں ان کے فکری و تہذیبی نمائندے ایک طرف ہیں اور عالم اسلام کے دینی حلقے اور عوام دوسری طرف ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں ہر وقت تازہ رہنی چاہیے کہ دینی مدارس کو ختم کرنے، کمزور کرنے، بے اثر کرنے اور انہیں ان کے معاشرتی دینی کردار کے ٹریک سے ہٹانے کی تمام کوششوں میں ناکامی کے بعد اب سارا زور اس بات پر لگ رہا ہے کہ عام مسلمانوں کو دینی مدارس سے متنفر کیا جائے اور میڈیا اور لابنگ کے تمام حربے استعمال کر کے مسلم سوسائٹی اور دینی مدارس کا باہمی تعلق کمزور کیا جائے۔ اس وقت اس کشمکش کا سب سے بڑا محاذ یہی ہے، چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دینی حلقوں اور مدارس کی کردارکشی کی یہ مہم اس وقت پوری دنیا میں عروج پر ہے اور سیکولر محاذ کی ولایتی اور دیسی ہر قسم کی دانش اس کے لیے ہر سطح پر متحرک ہے۔

اس حوالہ سے میں اس بات کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ اس مہم میں سیکولر دانش کو ناکام سمجھنا درست نہیں ہوگا کیونکہ یہ ماحول بہرحال ہمارے ہاں پیدا ہو گیا ہے کہ دینی جلسوں، مظاہروں، جلوسوں اور دیگر اجتماعات میں عام شہریوں کی شمولیت کم ہوتی جا رہی ہے اور ہم اب اس قسم کے معاملات میں دینی مدارس کے طلبہ پر قناعت کرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ ہماری کوتاہیاں ہوں یا اس کو سیکولر حلقوں کی مہم کی کامیابی شمار کیا جائے، دونوں صورتوں میں ہمیں اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اجتماعات، مظاہروں اور جلوسوں میں عام شہریوں کی شمولیت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے اور ہم ان معاملات میں دینی مدارس کے طلبہ پر قناعت کیوں کرنے لگے ہیں؟ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس طرح ہم افرادی قوت تو ظاہر کر لیتے ہیں لیکن عوامی دباؤ کا وہ سیاسی و نفسیاتی ماحول قائم نہیں ہو پاتا جسے سول سوسائٹی کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے اور جو دینی مدارس کو سول سوسائٹی سے الگ کر دینے کی منفی مہم کے خلاف ہماری اصل ضرورت ہے۔

اس وقت اصل جنگ یہ ہے کہ سوسائٹی اور دینی مدارس کے باہمی تعلق اور ربط کو کمزور کیا جائے اور عوامی سطح پر دینی مدارس کو تنہا کر دیا جائے۔ خاص طور پر ۳ اپریل کی ’’استحکام پاکستان کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے میں احباب سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ کہ زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر طبقات مثلاً تاجر حضرات، وکلاء، ڈاکٹرز، عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و طلبہ اور خاص طور پر عام کے مختلف سطحوں پر منتخب نمائندوں پر محنت کریں اور انہیں ساتھ لے جائیں تاکہ ہم اسے زیادہ سے زیادہ قومی اجتماع کی حیثیت دے کر دینی مدارس کی دینی، فکری اور معاشرتی جدوجہد کے حوالہ سے دنیا کو وہ پیغام مؤثر انداز میں دے سکیں جس کے لیے اس کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۹ مارچ ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter