وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو ’’رابطہ عوام‘‘ مہم کے اختتام پر لاہور ڈویژن کے دورہ پر تشریف لائے تو گوجرانوالہ کی سرزمین کو درود مسعود کے شرف سے نوازا۔
(۱) وزیراعظم کی تشریف آوری سے ہفتہ عشرہ قبل ہی انتظامیہ کی نقل و حرکت کسی آندھی اور طوفان کی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔ ضلع کی اہم شاہراہوں پر پولیس آفیسر بسوں کے کاغذات وصول کر کے انہیں وزیراعظم کی آمد پر دیہات سے عوام کو ڈھونڈنے کا فریضہ سونپ رہے تھے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس آفیسر شب و روز جلسہ عام کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ میونسپل اسٹیڈیم میں جلسہ کے انتظامات کیے جا رہے تھے اور عوام کو قائد عوام سے دور رکھنے کے لیے اسٹیج سے ۲۰۰ گز کے فاصلے پر لوہے کے پائپ نصب کیے جا رہے تھے۔ اخبارات کے خصوصی نمبر شائع کرنے کی مساعی ہو رہی تھیں۔ غرض کہ ہر طرف وزیراعظم کی آمد ہی کا غلغلہ تھا اور انتظامیہ کی شبانہ روز سرگرمیوں سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان لوگوں کا مصرف اب صرف یہی رہ گیا ہے کہ وزیراعظم کے جلسہ کا انتظام کریں، کیونکہ اس دوران کوئی اور انتظامی یا عدالتی کام معمول کے مطابق انجام نہیں دیا گیا۔
(۳) جلسہ کے انتظامات کے لیے صنعتکاروں سے لاکھوں روپے کا چندہ وصول کیا گیا اور تحصیلداروں کے ذریعہ بھی چندہ وصول کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔ تحصیلداروں نے محکمہ کے افراد اور پٹواریوں کے ذمہ کام لگایا، ایک خبر کے مطابق صرف تحصیل وزیرآباد سے پٹواریوں نے ۵۰ ہزار روپے چندہ اکٹھا کر کے دیا۔ اس کے علاوہ پٹواریوں اور پولیس انسپکٹروں کے ذمہ دیہات سے بسیں بھر کر لانے کی ڈیوٹی بھی لگائی گئی اور وہ غریب بسیں اور ٹرک لیے دیہات میں غریب عوام کی منتیں کر کے انہیں شہر کی سیر، بھٹو صاحب کی زیارت اور پلاؤ کھلانے کے بہانے دو روز تک جمع کرنے میں مصروف رہے۔ بسوں اور ٹرکوں کے مالکوں کی کیفیت عجیب تھی، ایک بس والے نے بتایا کہ ہماری بسیں بھی قبضہ میں لے لی گئیں اور ۲۰ روپیہ فی بس چندہ بھی لیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۶۰۰ بسیں اور ٹرک صرف گوجرانوالہ کے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے تحویل میں لیے گئے۔ ایک ٹرک والا میونسپل اسٹیڈیم کے دروازے پر بیٹھا سنا رہا تھا کہ ٹرک بھی دو روز کے لیے پولیس نے قبضہ میں لے لیا، ہم بھی پھنسے ہوئے ہیں، کھانا بھی نہیں ملا اور پٹرول بھی ہمیں اپنے خرچ سے ڈلوانا پڑ رہا ہے۔
(۳) وزیراعظم کی کھلی کچہری کے لیے وفود کی تیاری کا مرحلہ آیا تو بڑی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں۔ وکلاء کے وفد کو پابند کرنے کی کوشش کی گئی کہ جو سوالات انتظامیہ کی طرف سے دیے جائیں گے آپ صرف ان سوالات کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہیں گے۔ وکلاء نے اسے آزادیٔ رائے کے منافی قرار دیا اور بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کر کے جناب بھٹو کے دورہ کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پی پی سے متعلق وکلاء نے اپنے طور پر وفد کی صورت میں ملاقات کا پروگرام بنا کر اس ’’خلا‘‘ کو پر کرنے کی کوشش کی مگر دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کہ مصداق ان غریبوں کو بھی ’’سلامی‘‘ کی اجازت نہ ملی۔ بھٹو صاحب کی طبع نازک پر وکلاء کا یہ بائیکاٹ گراں گزارا۔ مزید برآں انہوں نے بار ایسوسی ایشن کے لیے گرانٹ کا اعلان کیا تو غیرت مند وکلاء نے اسے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سنا ہے کہ فیصل شہیدؒ میموریل ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے وکلاء پر خفتگی کا اظہار فرمایا، مگر
صحافیوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا مسئلہ پیش آیا۔ انہیں چند سوالات و آداب کا پابند کر دیا گیا تھا مگر انتظامیہ کو پھر بھی اطمینان نہ ہوا۔ بالآخر یہ کہہ کر ان کے وفد کو ملاقات سے روک دیا گیا کہ ’’تم میں ایک شر پسند ہے‘‘۔ اب سنا ہے کہ گوجرانوالہ کے صحافی اپنی صفوں میں اس ’’شرپسند‘‘ کی تلاش میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے وہ ’’قائد عوام‘‘ کے دیدار سے محروم رہ گئے۔
طلبہ کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ چند متعلقہ سوالات سے آگے نہیں بڑھیں گے، مگر یہاں انتظامیہ سے کچھ چوک ہوگئی۔ کھلی کچہری کے دوران اسلامیہ کالج یونین کے سیکرٹری اور جمعیۃ طلباء اسلام کے سرکردہ کارکن سجاد حسین نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے تحریک ختم نبوت کے کارکنوں کے خلاف مقدمات اور گوجرانوالہ کے طلبہ کے خلاف مقدمات کا ذکر چھیڑ دیا جس پر بھٹو صاحب کے حکم پر صوبائی وزیر اعلیٰ جناب محمد حنیف رامے صاحب کو تحریک ختم نبوت کے مقدمات واپس لینے کا اعلان بالآخر کرنا ہی پڑا۔
انہی مقدمات کے سلسلے میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ نے بھی وزیراعظم سے بات چیت کے لیے ایک وفد ترتیب دیا تھا مگر ڈی سی صاحب نے وفد کو ملاقات کا وقت دینے سے معذوری کا اظہار کیا۔ پھر عرض کیا گیا کہ کھلی کچہری میں آنے کا موقع دیا جائے، جواب ملا کہ کھلی کچہری میں جانے کے لیے پیشگی اجازت لینا شرط ہے۔
بھٹو صاحب کی تشریف آوری والے دن علماء کرام جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں جمع ہوئے، بھٹو صاحب کو ٹیلی گرام دیا گیا کہ ہم ۔۔۔۔۔ ملاقات کے خواہش مند ہیں اور فون ۳۷۳۸ پر آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔ جواب نہ آنا تھا نہ آیا۔ بہرحال آواز پہنچ گئی اور پورے پنجاب میں مقدمات واپس لینے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ اس اعلان کے چار روز بعد اوکاڑہ کی جامع مسجد گول چوک کے سابق خطیب مولانا عبد اللہ، حال امام اونچی مسجد لاہوری گیٹ گوجرانوالہ، کو تحریک ختم نبوت کے دوران درج شدہ مقدمہ کے سلسلہ میں گرفتار کرلیا گیا اور بڑی دقت کے ساتھ کچھ ’’دے دلا کر‘‘ جان چھڑائی گئی۔
اس کے بعد خدشہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں یہ وعدہ بھی ۷ ستمبر کے وعدے کی طرح ’’سیاسی مصلحتوں‘‘ کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔
(۴) جلسہ عام کے لیے لوگوں کو جمع تو کر لیا گیا مگر اب مسئلہ درپیش تھا ’’قائد عوام کی عوام سے حفاظت کا‘‘۔ چنانچہ اسٹیج سے کم و بیش ۲۰۰ گز کے فاصلہ پر پائپ نصب کر کے درمیان کا حصہ خالی رکھا گیا۔ اس کے بعد غالباً سیکورٹی فورس سول لباس میں بٹھائی گئی۔ اس کے پیچھے دیہات سے ’’بیگار‘‘ میں لائے گئے عوام کو جگہ ملی جبکہ شہریوں کے حصہ میں ڈنڈے اور لاٹھیاں آئیں اور دروازوں پر کھڑی پولیس اور سیکورٹی فورس کو اپنا فن دکھانے کا خوب خوب موقع ملا۔ جو بھی جلسہ میں جانے کے لیے آگے بڑھا پولیس نے اس کی خوب تواضع کی۔ میں نے خود پیپلز پارٹی کے اہم کارکنوں کو اس حالت میں میدان چھوڑتے دیکھا ہے کہ انہیں اسٹیڈیم کے دروازوں سے اندر جانے کی صورت میں ڈنڈے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک موقع پر تو خود سیکورٹی فورس کو بھی پولیس پر غصہ آگیا۔ اور سنا ہے پھر سیکورٹی فورس کے لٹھ برداروں نے پولیس کے نوجوانوں کی بھی کر دی۔ اندر بھٹو صاحب تقریر فرما رہے تھے، جو لوگ اندر دھکیل دیے گئے ان کے باہر آنے کے دروازے بند کر دیے گئے، اور جو باہر رہ گئے تھے پولیس اور سیکورٹی فورس ان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھی۔
اور اس طرح وزیراعظم گوجرانوالہ کے عوام کو اپنی تقریر دلپذیر سے شاد کام فرما کر شیخوپورہ روانہ ہوگئے۔