شرعی نظامِ عدل کا خوش آئند نفاذ

   
تاریخ : 
۱۷ اپریل ۲۰۰۹ء

قومی اسمبلی سے سوات کے معاہدۂ امن کی منظوری کی خوش کن خبر مجھے لندن پہنچنے پر ملی۔ ۱۴ اپریل کو صبح ساڑھے چھ بجے کے لگ بھگ ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا تو سفر شروع کیے مجھے تقریباً بائیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ سعودیہ ایئر لائن کی فلائٹ تھی، ۱۳ اپریل کو ساڑھے بارہ بجے دن لاہور سے پرواز کی اور ریاض سے ہوتے ہوئے جدہ پہنچا۔ رات کو ڈیڑھ بجے دوسری پرواز سے روانہ ہوئے اور لندن کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے جبکہ پاکستان میں ساڑھے دس بجے کا وقت تھا ہم لندن پہنچے۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے، انہوں نے ملاقات کے بعد پہلی خبر یہ سنائی کہ قومی اسمبلی نے معاہدۂ امن کی منظوری دے دی ہے اور صدر آصف علی زرداری نے بھی دستخط کر دیے ہیں جس سے پورے سوات میں جشن کا سماں ہے۔ یہ خوشخبری ملتے ہی دل و دماغ میں اضطراب کی ان لہروں نے کچھ سکون پکڑا جو اس معاہدہ پر دستخط میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے مستقبل کے خدشات و خطرات کے حوالہ سے پریشانی اور بے چینی کا باعث بنی ہوئی تھیں۔

۱۱ اپریل کو بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی ختم نبوت کانفرنس میں مجھے خطاب کی دعوت دی گئی تو میرے ذہن پر اس وقت بھی سوات کی صورتحال اور معاہدۂ امن کے مستقبل کے سوال کا غلبہ تھا۔ چنانچہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی قیادت کو کانفرنس کی کامیابی پر مبارکباد دینے کے سوا کانفرنس کے موضوع پر کچھ نہ کہہ سکا اور پندرہ بیس منٹ کی گفتگو سوات کے حوالہ سے ہی کی۔ اتفاق سے وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی بھی اسٹیج پر تشریف فرما تھے اس لیے میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوات کا مقدمہ پیش کیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

سوات کے مظلوم عوام کے ساتھ بار بار زیادتی اور ظلم ہو رہا ہے، باقی سارے ملک کے ساتھ تو ساٹھ سال سے یہ ظلم ہو رہا ہے کہ وعدہ، اعلان اور دستوری ضمانت کے باوجود ملک کے عوام کو شرعی نظام سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے مگر سوات کے عوام کے ساتھ یہ ظلم ہوا کہ پاکستان کے ساتھ الحاق سے پہلے ریاست سوات میں شرعی عدالتوں کا نظام موجود تھا اور لوگوں کے مقدمات کے فیصلے قاضی حضرات قرآن و سنت کے مطابق کرتے تھے، اس نظام کو ختم کر دیا گیا۔ حالانکہ برطانوی استعمار کے دور میں سوات کے عوام کو شرعی عدالتوں کی سہولت حاصل تھی اور صرف سوات نہیں بلکہ پنجاب میں بہاولپور کی ریاست، سندھ میں خیرپور کی ریاست اور بلوچستان میں قلات کی ریاست میں بھی شرعی عدالتوں کا یہ نظام موجود تھا جو پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد ختم کر دیا گیا۔

سوات کے عوام کے ساتھ دوسرا ظلم اس وقت ہوا جب وہ ۱۹۹۴ء میں یہ مطالبہ لے کر سڑکوں پر آئے کہ نیا عدالتی نظام ان کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا، مقدمات کے فیصلوں میں وقت بہت لگتا ہے اور اخراجات بھی بہت زیادہ ہو جاتے ہیں، اس لیے انہیں فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے کے لیے شرعی عدالتوں کا سابقہ نظام واپس کیا جائے۔ عوام کے اس مطالبہ اور پرجوش تحریک پر انہیں اس وقت کی حکومت نے ’’نفاذ شریعت ریگولیشن‘‘ کے نام سے جو نظام دیا اس میں ان کے ساتھ دھوکہ ہوا کہ اصطلاحات کے ہیرپھیر اور الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ ان پر وہی نظام مسلط کر دیا گیا جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد وہ پھر سڑکوں پر آگئے اور اس میں جبر و تشدد کی وہ افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی جس نے ملک کے ہر شہری کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ چنانچہ ان سے وعدہ کیا گیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور تشدد کا راستہ ترک کر دیں تو انہیں شرعی عدالتوں کا نظام دے دیا جائے گا، اور اب جبکہ صوبائی حکومت کے ساتھ ایک ’’معاہدۂ امن‘‘ کے تحت سوات میں امن بحال ہوگیا ہے اور حالات بہتری کی طرف گامزن ہوگئے ہیں تو اس معاہدۂ امن کی توثیق میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے اور حالات میں پہلے سے زیادہ بگاڑ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔

راقم الحروف نے اس تمہید کے بعد یہ عرض کیا کہ نظام عدل یا نظام شریعت، اسے کوئی بھی عنوان دے دیں، شرعی عدالتوں کا نظام سوات کے عوام کا مطالبہ ہے اور یہ بات مشاہدات کی بنیاد پر واضح ہوگئی ہے کہ یہ نہ صرف سوات کے عوام کا جمہوری حق ہے بلکہ امن کی ضمانت بھی اسی میں ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت کو اس معاہدہ کی بلاتاخیر توثیق کرنی چاہیے کیونکہ اب اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن اس کے پاس باقی نہیں رہا۔ دوسری گزارش میں نے یہ کی کہ فوری اور سستا انصاف صرف سوات کے عوام کا حق اور ضرورت نہیں بلکہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی بھی ضرورت ہے۔ یہ کراچی، لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، پشاور اور کوئٹہ کی بھی ضرورت ہے اور حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک بھر کے عوام کو قرآن و سنت کے احکام و قوانین پر مبنی ایسا عدالتی نظام فراہم کرے جو فوری اور سستے انصاف کی ضمانت دے سکے۔

یہ تو ان گزارشات کا خلاصہ ہے جو میں نے بادشاہی مسجد لاہور کی قومی ختم نبوت کانفرنس میں پیش کیں اور اب جبکہ قومی اسمبلی اور صدر مملکت نے سوات کے عوام کے اس مطالبہ کو منظور کر لیا ہے تو اس پر میں صدر زرداری اور حکومتی اتحاد کے تمام قائدین کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کو مبارکباد کا سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہوں اس لیے کہ اس کی اصول پسندی اور استقامت نے اس معاملہ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

۱۰ اپریل کو جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما مولانا سمیع الحق لاہور تشریف لے جاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے گکھڑ رکے اور والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے ملاقات کی تو اس موقع پر راقم الحروف بھی موجود تھا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اے این پی کے رویہ کی بہت تعریف کی اور کہا کہ اے این پی کی قیادت اور صوبائی حکومت پورے حوصلہ اور استقامت کے ساتھ اس کیس کی پیروی کر رہی ہے اور قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت کو بریف کرنے میں بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے۔ مجھے یہ سن کر ۱۹۷۲ء یاد آگیا جب صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ جو اس وقت نیشنل عوامی پارٹی کہلاتی تھی، کولیشن کی صورت میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے وزارت اعلٰی کا منصب سنبھالا تھا تو کولیشن کے معاہدہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وفاق میں دستور سازی کے موقع پر اسلامائزیشن کے حوالہ سے نیشنل عوامی پارٹی جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ تعاون کی پابند ہوگی۔ اور پھر یہ بات پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی نے ایک قوم پرست اور سیکولر پارٹی ہونے کے باوجود اس عہد کو نبھایا اور اس کے تعاون سے دستور میں اسلامی دفعات شامل ہوئیں۔

بہرحال وہ تمام فریق اور افراد اس معاہدۂ امن کی توثیق اور نفاذ پر مبارکباد کے مستحق ہیں جن کا اس میں کسی بھی درجہ میں کردار موجود ہے۔ البتہ ایم کیو ایم اور جناب الطاف حسین کے طرزعمل پر افسوس ہوا کہ امن اور شریعت دونوں حوالوں سے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جناب الطاف حسین نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ ڈنڈا بردار اور کلاشنکوف شریعت کے نفاذ کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات الطاف حسین صاحب کے منہ سے کچھ عجیب سی لگتی ہے اور میں الطاف بھائی سے بطور خاص یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جناب اگر ڈنڈا بردار اور کلاشنکوف بکف ’’قومی موومنٹ‘‘ ہو سکتی ہے تو ڈنڈا بردار شریعت پر انہیں آخر کیوں اعتراض ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter