قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیاں اور انڈونیشیا کی حکومت کا فیصلہ

   
جولائی ۲۰۰۸ء

مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کو ایک سو سال مکمل ہونے پر جہاں قادیانی جماعت دنیا بھر میں صد سالہ تقریبات کا اہتمام کر رہی ہے وہاں پاکستان میں اس کی سرگرمیوں میں اضافے کی خبریں بھی منظر عام پر آ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں قادیانی اسٹوڈنٹس کی ایسی سر گرمیوں کا نوٹس لیا گیا ہے جو طلبہ اور طالبات میں قادیانیت کے پرچار کے لیے کی جا رہی تھیں۔ کنٹری سندھ، خوشاب اور کوٹلی آزاد کشمیر سے بھی اس نوعیت کی سر گرمیوں کی اطلاعات اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی منظر تبدیل ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی گروہ پھر سے ملک کے مختلف حصوں میں متحرک ہو رہا ہے اور بعض حکومتی حلقے بھی ان کی سرپرستی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

قادیانی گروہ ملک کے دستور کے مطابق غیر مسلم اقلیت ہے اور قانونی طور پر انہیں اسلام کے نام پر اپنے مذہب کا پرچار کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن وہ دستور و قانون کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ مذہب کے لیے اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات و شعائر استعمال کرنے پر بضد ہیں جو بے جا ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ دستور و قانون کو چیلنج کرنے کے بھی مترادف ہے۔ مگر بعض حکومتی حلقے دستور و قانون کے تقاضوں اور مسلمانوں کے عقائد و جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو اس بات کا موقع دے رہے ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر اور اسلام کی مخصوص شعائر و علامات کے ساتھ اپنے مذہب کا پر چار کریں اور مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوشش کریں۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے جس پر ملک بھر کے دینی حلقوں کی طرف سے احتجاج کیا جا رہا ہے، اس احتجاج میں ہم بھی شریک ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دستور و قانون اور ملت اسلامیہ کے اجماعی عقائد کی پاسداری کرتے ہوئے قادیانیوں کی منفی سرگرمیوں کا نوٹس لے اور دستور و قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مسلمانوں کے عقائد اور جذبات کا تحفظ کرے۔

اس کے ساتھ ہی ہم انڈو نیشیا میں قادیانیوں کی سرگرمیوں پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے لیکن کافی عرصہ سے وہاں قادیانی گروہ متحرک تھا اور اسلام کے نام پر عوام میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ تک بھی رسائی حاصل کر چکا تھا۔ قادیانیوں کی حقیقت کو سمجھنے میں اگرچہ انڈونیشیا کی حکومت کو کافی وقت لگا ہے اور وہاں کے دینی حلقوں کو خاصی محنت کرنا پڑی ہے مگر ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق یہ بھی غنیمت ہے اور ہم انڈونیشی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے وہاں کے دینی حلقوں کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter