وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت ختم کی جا رہی ہے اور اس کے لیے مسودۂ قانون کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ جرائم کی سزاؤں میں سے سزائے موت کو ختم کر دینے کی مہم ایک عرصے سے عالمی سطح پر جاری ہے اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بھی ایک قرارداد کے ذریعے سفارش کر چکی ہے کہ سزائے موت کو سرے سے سزاؤں کے زمرے سے نکال دیا جائے۔
موت کی سزا انسانی سوسائٹی کے آغاز سے ہی قوموں کی ”جرم و سزا“ کی تاریخ کا حصہ چلی آ رہی ہے اور کم و بیش تمام مذاہب و اقوام میں مختلف حوالوں سے یہ سزا نافذ رہی ہے۔ یہ سزا آسمانی تعلیمات کا مستقل حصہ ہے اور قرآن کریم کے علاوہ بائبل میں بھی متعدد جرائم میں اس سزا کا ذکر موجود ہے۔
بنی اسرائیل میں تورات کے نزول کے ساتھ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چند روز کے لیے کوہ طور پر گئے تو بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کی پرستش شروع کر دی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے واپسی پر یہ منظر دیکھا تو جلال میں آ کر حضرت ہارون علیہ السلام کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کی تھی کہ ان کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ قرآن کریم نے سورۃ البقرۃ اور دوسری سورتوں میں یہ ساری تفصیل بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ توحید کے عقیدے سے اس انحراف پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو موت کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی تعمیل میں ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
چونکہ عقیدۂ توحید سے انحراف پر موت کی اس سزا کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے اور اس کی منسوخی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا، بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارتداد پر موت کی سزا کا ہی حکم دیا ہے، اس لیے جمہور علمائے اسلام مرتد کے لیے موت کی سزا کو شرعی سزا کا درجہ دیتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اس کی وضاحت کے لیے ”الشہاب“ کے عنوان سے ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا تھا۔ جمہور علمائے اسلام کے ہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں کے جس حکم و قانون کا قرآن کریم میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس کی منسوخی کی صراحت نہیں کی، تو وہ ہماری شریعت کا بھی اسی طرح قانون بن جاتا ہے، جیسا کہ سابقہ شریعت اور قانون میں تھا۔
یہ اصول ارتداد کی شرعی سزا کی طرح زنا کی سزا پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زناکاری کے متعدد مقدمات پیش ہوئے، جو مسلمانوں کے بھی تھے اور یہودیوں کے بھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی جوڑے کو سنگساری کی صورت میں موت کی سزا سنائی تو نہ صرف تورات کا حوالہ دیا، بلکہ تورات منگوا کر اس کی متعلقہ آیات فیصلے کی اس مجلس میں سنائی گئیں اور یہ آیات آج بھی بائبل میں جوں کی توں موجود ہیں۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زناکاری کے مرتکب مسلمان شادی شدہ افراد کو بھی سنگسار کیا اور فرمایا کہ میں یہ فیصلہ ”کتاب اللہ“ کے مطابق کر رہا ہوں۔
قرآن کریم نے کسی انسان کے ناحق قتل کو سنگین جرم قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد ارشادات میں قتلِ انسانی کی شدید مذمت کی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے جہاں قتلِ نفس کو حرام اور جرم قرار دیا ہے، وہاں ”الا بالحق “ کی صراحت بھی کی ہے اور ”قتل حق“ اور ”قتل ناحق“ میں واضح فرق قائم کیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات گرامی میں قتلِ انسانی کی جن صورتوں کو ”قتل حق“ شمار کیا ہے، ان میں (۱) قاتل کا قصاص میں قتل، (۲) شادی شدہ زانی کا قتل، (۳) مرتد کا قتل، (۴) محاربہ اور ڈکیتی کا ارتکاب کرنے والے کا قتل اور (۵) باغی کا قتل شامل ہیں، بلکہ قرآن کریم نے قصاص میں قتل کی سزا کو انسانی سوسائٹی میں امن کے قیام کا باعث قرار دیا ہے۔ البتہ ”قتلِ حق“ کی یہ ساری صورتیں عدالتی نظام کے ساتھ منسلک ہیں اور کسی شخص کو ازخود یہ کارروائی کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
آج کی دنیا بائبل اور قرآن کریم کی بیان کردہ ان سزاؤں کو سخت سزائیں قرار دے رہی ہے، بلکہ جسمانی نوعیت کی کم و بیش تمام سزاؤں کو ”حرمتِ انسانی“ کے عنوان سے انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر انہیں ختم کر دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور اسی بنیاد پر (۱) قتل، (۲) اعضاء کے قصاص، (۳) کوڑوں کی سزا اور پھر (۴) سرِعام سزا دینے کو شرفِ انسانی کی توہین کے زمرے میں شمار کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے نظامِ جرم و سزا میں شامل، بلکہ اس کے ناگزیر حصے کے بارے میں بعض مسلمان کہلانے والے دانشور بھی ”غیر انسانی“ اور ”وحشیانہ“ جیسی اصطلاحات استعمال کر جاتے ہیں، یہ پروا کیے بغیر کہ یہ سزائیں قرآن کریم نے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہیں اور تورات میں بھی یہ سزائیں اسی طرح بیان ہوئی ہیں۔
یہاں اصولی طور پر یہ نکتہ غور طلب ہے کہ آج کی دنیا شرفِ انسانیت کے احترام اور انسانی جان کی حرمت و تقدیس میں سب انسانوں کو بلا امتیاز برابر کا مستحق سمجھتی ہے، جن کا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور میں بھی تذکرہ موجود ہے، لیکن قرآن کریم اس کو قبول نہیں کرتا۔ اس لیے کہ قرآن کریم نے جہاں انسان کے لیے ”احسن تقویم“ کی بات کی ہے وہاں ”اسفل السافلین“ کی بات بھی کی ہے، اور جہاں ”کرمنا بنی آدم “ کہہ کر آدمی کی تکریم بیان کی ہے وہاں ”اولئک کالانعام بل ھم اضل“ فرما کر انسانوں کی ایک بڑی تعداد کے جانوروں سے بدتر ہونے کا حکم بھی صادر فرمایا ہے، اور ہر انسان کی برابر تکریم کو ضروری قرار دینے کی بجائے ”ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“ کا اصول بیان کیا ہے کہ انسان کی تکریم اس کے کردار اور تقوے کی بنیاد پر ہو گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق پامال کرنے والوں کو تکریم کا مستحق نہیں سمجھتا اور نہ ہی ان کی عزت و جان کو تقویٰ و کردار والوں کے برابر حرمت کا حق دار قرار دیتا ہے۔
اگرچہ وفاقی وزیر قانون جناب فاروق ایچ نائیک نے اپنے مذکورہ بیان میں فرمایا ہے کہ حدود میں موت کی سزا قائم رہے گی اور صرف تعزیرات میں موت کی سزا کو ختم کیا جائے گا، جو کسی حد تک اطمینان بخش بات لگتی ہے۔ لیکن ہمارے اشکالات اور تحفظات کا تعلق اس مسئلے کی اصولی حیثیت سے ہے کہ ہم ایک طرف تو قرآن و سنت پر ایمان کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف مغربی فکر و فلسفے کی ان باتوں کو بھی مسلسل قبول کرتے جا رہے ہیں، جو قرآن و سنت کے اصول و احکام سے صریحاً متصادم ہیں۔ دستورِ پاکستان میں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہو گی، بلکہ خود قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے ملک میں نفاذ کو یقینی بنایا جائے گا، لیکن اس کے برعکس مسلسل قانون سازی جاری ہے۔ تحفظ حقوق نسواں کے دلفریب عنوان کے تحت حدود آرڈیننس میں ترامیم کے مرحلے میں یہی کچھ ہوا تھا، گھریلو تشدد کے خاتمے کے ٹائٹل کے ساتھ قانون سازی کے عمل میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے اور اب سزائے موت کو ختم کر دینے کے نام سے بھی یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔