گزشتہ جمعہ کو ملک کے مختلف حصوں میں دینی مدارس پر پولیس کے اچانک چھاپوں اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہ صاحب مدظلہ العالی کی گرفتاری کے خلاف یوم احتجاج منایا گیا۔ خطباء کرام اور دینی راہنماؤں نے حضرت شاہ صاحب مدظلہ کی گرفتاری اور دینی مدارس کے خلاف حکومتی کاروائیوں پر شدید احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے۔
دینی مدارس کے بارے میں ایک عرصہ سے عالمی سطح پر یہ پراپیگنڈا مہم جاری ہے کہ وہ انتہا پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں اور ان میں دہشت گرد تیار ہوتے ہیں حالانکہ یہ قطعی طور پر خلاف واقعہ بات ہے اور دینی مدارس کے وفاقوں کی مشترکہ قیادت کئی بار حکمرانوں پر واضح کر چکی ہے کہ ان مدارس میں طلبہ کو کسی قسم کی عسکری ٹریننگ نہیں دی جاتی اور اگر ملک کے کسی بھی مدرسہ میں اسلحہ کی ٹریننگ کی حکومت نشاندہی کر دے تو وفاق المدارس اس کے خلاف کاروائی میں خود شریک ہوگا۔ مگر حکومت اس ساری صورتحال سے واقف ہوتے ہوئے بھی دینی مدارس پر بلاوجہ چھاپے مار کر خوف و ہراس کی فضا قائم کر رہی ہے جبکہ ان چھاپوں سے عملاً کوئی نتیجہ نہیں ہو رہا سوائے اس کے کہ طلبہ اور اساتذہ کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور اس طرح دینی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کرنے اور عام لوگوں کو دینی تعلیم سے دور رکھنے کی فضا ہموار کی جا رہی ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر جنرل پرویز مشرف کے خطاب کے موقع پر اس سلسلہ میں شدید احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دینی مدارس پر آئے روز چھاپوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے، اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خوف و ہراس کی فضا قائم کرکے دینی تعلیم کا ماحول خراب کیا جائے اور عام مسلمانوں کو دینی تعلیم سے روکنے کی کوئی صورت نکالی جائے کیونکہ دینی تعلیم کے روز بروز وسعت پذیر ماحول اور دینی مدارس کی پرامن تعلیمی سرگرمیوں نے ان عناصر کے پروپیگنڈے کو بے اثر کر دیا ہے جو ان دینی اداروں کے خلاف کردارکشی مہم چلا کر اور انہیں بدنام کرکے ان کا تعلق عام مسلمانوں سے کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف ان دینی مدارس کے لیے اربوں روپے کی امداد کا اعلان ہو رہا ہے اور دوسری طرف انہی دینی مدارس پر چھاپے مار کر اساتذہ اور طلبہ کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اپنی آئینی اور ملی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور دینی مدارس کو اس قسم کی کاروائیوں سے خوفزدہ کرنے کی بجائے انہیں آزادی کے ساتھ اپنا دینی اور تعلیمی کام جاری رکھنے کا موقع فراہم کرے کیونکہ ملک و ملت کا مفاد بہرحال اسی میں ہے۔