ان دنوں پھر اعلیٰ سطح پر ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے اسلامی تعلیمات کے نصاب میں تبدیلی کی باتیں گردش کر رہی ہیں اور صدر پرویز مشرف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ نصاب فرقہ واریت کا باعث بن رہا ہے اس لیے اس کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔
دراصل مغرب کے دباؤ کے باعث ہمارے حکمران طبقے ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہیں کہ ملک کے سرکاری نصاب تعلیم میں اسلامی تعلیمات کا جتنا کچھ مواد موجود ہے اسے اگر ختم نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم کر دیا جائے اور خاص طور پر عقیدہ ، جہاد اور اسلام کے معاشرتی احکام سے نئی نسل کو جتنا ہو سکے دور رکھا جائے۔ ورنہ فرقہ واریت کی بات تو صرف بہانہ ہے اور اگر ملک کے کسی ایک حصے میں اس کی کوئی ہلکی سی جھلک موجود بھی ہے تو اسے سارے ملک کے لیے مثال بنانے کی بات قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ اس حقیقت کا آج پوری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ ملک کے تمام دینی حلقے اور مذہبی مکاتب فکر دینی مدارس کے وفاقوں کے پلیٹ فارم پر بھی متحد ہیں اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فورم پر بھی یکجا دکھائی دے رہے ہیں۔اگر دینی تعلیمات میں فرقہ واریت اس قدر بے لچک ہوتی جتنا اس کا ہوّا ہمارے حکمران دنیا کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دینی قوتوں اور مذہبی مکاتب فکر کے درمیان اتحاد وہم آہنگی کی موجودہ فضا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس لیے ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ وہ فرقہ واریت کا بہانہ بنا کر ملک کے نظام تعلیم کا جھٹکا کرنے کی بجائے ان مطالبات کی طرف توجہ دیں جو تمام دینی مکاتب فکر متفقہ طور پر دینی تعلیمات کے حوالہ سے ان سے کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ مضحکہ خیز منظر نہ دکھائیں کہ ملک کے تمام مذہبی مکاتب فکر تو متحد ہو کر حکومت سے دینی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی قوانین کی عملداری کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر حکومت الٹا ان پر فرقہ واریت کا الزام لگا کر اسلامی تعلیم کے رہے سہے آثار کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے۔