(خطبہ جمعۃ المبارک ۲۳ جمادی الثانی ۱۴۴۵ھ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ’’ان لا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذ اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا‘‘ (التوبۃ ۴۰) ان آیات کریمہ میں اللہ رب العزت نے غزوہ تبوک اور اس میں حیلے بہانے کر کے پیچھے رہ جانے والوں کا تذکرہ تفصیل سے فرمایا ہے۔ تبوک میں دنیا کی بڑی طاقت روم سے مقابلہ تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی اور سب سے بڑی عیسائی سلطنت تھی، اسے آج کا امریکہ سمجھ لیں۔ روم کا بادشاہ قیصر روم بڑا باجبروت حکمران تھا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قیصرِ روم شام کے علاقے میں آیا ہوا ہے اور مدینہ منورہ پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ شام اس وقت روم کا صوبہ تھا۔ مؤرخین اور جنگی ماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاسوسی کا نظام بہت مضبوط تھا کہ اس زمانے میں اتنے دور کے علاقے کی خبریں ملتی تھیں اور صورتحال پر نظر ہوتی تھی۔
جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ قیصِر روم شام میں ہے اور مدینہ منورہ پہ حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے فیصلہ کیا کہ یہ لڑائی مدینہ میں نہیں بلکہ شام میں ہو گی۔ کسی بھی جرنیل کا سب سے بڑا کام یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ لڑنا کہاں ہے اور میدانِ جنگ کون سا ہوگا۔ یہ جنگی حکمت عملی ہوتی ہے کہ ہماری زمین پر جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ اور بجائے یہ کہ وہ لاکھوں کی فوج لے کر اِدھر آ جائے، ہمیں وہاں جانا چاہیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرما لیا کہ جنگ مدینہ میں نہیں بلکہ شام میں ہوگی اس لیے جتنا جلدی ہو سکے تیاری کرو۔ لام بندی کا اعلان ہو گیا کہ جو لڑنے کے قابل ہے وہ دو تین دن میں تیاری مکمل کرے اور ہمارے ساتھ چلے۔
تبوک کا سفر بہت لمبا تھا اور جانے کی مسافت ایک مہینہ تھی۔ شدید گرمی کا موسم تھا اور فصلیں پکی ہوئی تھیں۔ سارا علاقہ کسانوں کا تھا، ان کے باغ، کھیتیاں اور کھجوریں پکنے کا موسم تھا۔ پکی ہوئی فصل چھوڑ کر کون جانے کے لیے تیار ہوتا ہے؟ لیکن حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جہاد کے لیے تیار ہو گئے۔ کچھ لوگ جو منافقین تھے اور روایات کے مطابق ان کی تعداد ستر اَسی کے لگ بھگ تھی، حیلے بہانے کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں بیمار ہوں، یا رسول اللہ! میری بیوی بیمار ہے، یا رسول اللہ! گھر میں اور کوئی مرد نہیں ہے۔ طرح طرح کے حیلے بہانے کیے۔ یہ منظر قرآن مجید نے سورۃ التوبۃ میں بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب جہاد کی بات ہوتی ہے اور اللہ کے راستے میں اسلام کی سربلندی اور کفر کے مقابلے کے لیے آواز دی جاتی ہے تو تم سستی کرتے ہو اور زمین میں سمٹے جاتے ہو۔ ’’یا یھا الذین اٰمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض؟‘‘ (التوبۃ ۳۸) تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں نکلو تو تم زمین میں دھنسے جاتے ہو؟
ہم کتابوں میں پڑھتے تھے کہ زمین میں دھنسے جانا کسے کہتے ہیں لیکن سچی بات ہے کہ آج عملاً اس کا منظر دیکھ رہے ہیں کہ زمین میں چمٹے جانا کیسے ہوتا ہے؟ بیت المقدس، ہمارے فلسطینی بھائی اور فلسطین کی بابرکت زمین آوازیں دے رہی ہے لیکن ہم زمین میں چمٹے ہوئے ہیں، بلکہ کوشش کر رہے کہ زمین کے اندر جگہ ملے تو وہاں گھس جائیں تاکہ یہ آواز ہمارے کان میں نہ پڑے کہ ’’انفروا فی سبیل اللہ‘‘ اللہ کے راستے میں نکلو۔
اللہ رب العزت یہ سارا منظر بیان کر کے فرماتے ہیں کہ تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ صرف اس لیے بلاتے ہیں تاکہ تمہاری آزمائش ہو جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کافروں سے نمٹنے کے لیے اکیلے بھی کافی ہیں۔ ’’ان لا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذ اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا‘‘ (التوبۃ ۴۰)۔ اگر تم مدد نہیں کرتے تو نہ کرو، ہم نے تو اس وقت بھی مدد کی تھی جب صرف دو آدمی تھے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ دونوں مکہ سے چھپ کر نکلے تھے، تین راتیں غار میں رہے، راستہ بدل کر جا رہے تھے کہ کسی طریقے سے یثرب پہنچ جائیں، بیسیوں گروپ پیچھے لگے ہوئے تھے کہ انہیں پکڑ کر واپس لائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے بحفاظت یثرب پہنچانا تھا، سو پہنچا دیا۔ اللہ رب العزت نے ان کی اس سفر میں کیسے حفاظت فرمائی؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے سارے مناظر بیان کیے ہیں، اس میں سے دو باتیں سمجھانے کے لیے عرض کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ جب مدد کرنے پر آتے ہیں تو مدد کرتے ہیں لیکن ہم بھی تو کھڑے ہوں، ہماری ٹانگوں میں بھی کچھ جان ہو۔
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جا رہے تھے اور میری اردگرد کے ماحول پر نظر تھی، مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا تعاقب ہو رہا ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ! لگتا ہے کوئی ٹولی ہم تک پہنچ گئی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اللہ خیر کرے گا۔ یہ پیچھا کرنے والے سراقہؓ تھے جو بعد میں صحابی بنے۔ اپنے علاقے کے چودھری تھے۔ حضرت سراقہؓ نے بعد میں خود بھی یہ داستان بیان کی ہے۔ جب نبی اکرمؐ اور حضرت ابوبکرؓ ان کے علاقے سے گزر رہے تھے تو سراقہؓ نے دیکھ لیا اور پیچھا کیا کیونکہ انہیں پکڑنے پر کئی سو اونٹ انعام مقرر تھا۔ یہ دونوں پیدل تھے جبکہ سراقہؓ گھوڑے پر تھے۔ پیچھے سے آواز دی، جب قریب ہوئے تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ گھوڑے کی ٹانگیں زمین میں دھنس گئیں اور اس کا پیٹ زمین سے لگ گیا۔
سراقہ کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ یہ معاملہ کچھ اور ہے، یہ عام معاملہ نہیں ہے، میں نے درخواست کی کہ مجھے حقیقت حال سمجھ آ گئی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے یہاں سے نکالے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ جو آپ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو گھوڑا زمین سے باہر نکل آیا۔ سراقہ نے کہا، میرے لیے کیا حکم ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ہم اس راستے سے جا رہے ہیں، تمہارا یہیں ڈیرہ ہے، تم ایسا کرنا کہ ادھر سے کسی کو نہ آنے دینا بس، اور ساتھ ہی خوشخبری سنا دی کہ سراقہ! میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ حضرت سراقہؓ نے کہا، ٹھیک ہے آپ تسلی سے جائیں، میں ادھر سے کسی کو نہیں آنے دوں گا۔
اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام دیکھیں حضرت سراقہؓ کہتے ہیں کہ میں نے وہاں راستے میں تین چار دن پہرہ دیا اور جو کوئی بھی ادھر سے پیچھا کرنے کی غرض سے جانا چاہتا تو میں اسے کہہ دیتا کہ میں ادھر بیٹھا ہوا ہوں میں نے سب دیکھ لیا ہے ادھر کوئی نہیں ہے، دوسرے راستوں سے تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے کا راستہ یوں محفوظ کیا کہ جو راستے میں پکڑنے کے لیے بیٹھا تھا وہ اب محافظ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ جب تک حضورؐ یثرب پہنچ نہیں گئے، حضرت سراقہؓ نے یہی ڈیوٹی دی کہ جو بھی ادھر سے پیچھا کرنا چاہتا اسے واپس بھیج دیتے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا کہ میں اس طرح بھی حفاظت کر لیتا ہوں۔
اسی سفر کا ایک واقعہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم غارِ ثور میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک بار ایسا ہوا کہ کوئی ٹولی ڈھونڈتے ہوئے پہاڑی کے اوپر پہنچ گئی، وہ ہمیں نظر آ رہے تھے، ہم انہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں، ہم نیچے کی طرف ہیں، ان میں سے کسی آدمی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیا تو ہم اسے نظر آ جائیں گے۔ اس موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا تحزن ان اللہ معنا‘‘ گھبرائیں نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے، ہم اس کے حکم پر جا رہے ہیں وہ حفاظت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ آزماتے ضرور ہیں اور یہ کوئی ہلکی پھلکی آزمائش نہیں ہوتی، لیکن جب اللہ تعالیٰ یہ کہہ دیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو پھر گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اللہ رب العزت قرآن کریم میں غار کا واقعہ بیان کر کے تبوک سے پیچھے رہنے والوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ میرا اپنا نظام ہے، تمہیں تو اعزاز ملتا ہے کہ ہم نے فتح کیا ہے، حالانکہ سارے کام میری مرضی سے ہوتے ہیں، میں تو غیبی مدد کرتا ہوں ، جیسے ان دونوں کی میں نے غار میں مدد کی تھی۔
حضرت سراقہؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے راستے میں فرمایا تھا کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ کسریٰ اس وقت کی دوسری بڑی طاقت تھی۔ بخاری شریف کی روایت میں حضرت سراقہؓ نے خود بیان کیا ہے اور مؤرخین بھی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کسریٰ کو شکست ہوئی، ایران فتح ہوا اور اس کے خزانے مدینہ منورہ لائے گئے تو حضرت عمرؓ نے خزانوں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ان خزانوں میں کوئی چیز تلاش کر رہے تھے، کبھی ایک گٹھڑی کھول کر اس میں دیکھتے، کبھی دوسری گٹھری میں دیکھتے۔ اسی کیفیت میں سارا دن گزر گیا، حضرت عمرؓ کے رعب کی وجہ سے کوئی آپ سے پوچھ بھی نہیں رہا تھا کہ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ اگلا سارا دن بھی اسی کیفیت میں گزر گیا کہ گٹھڑیاں اور پوٹلیاں کھول کھول کر کوئی چیز تلاش کر رہے ہیں جو نہیں مل رہی، اور ساتھ یہ کہتے کہ یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ تیسرے دن میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! کیا تلاش کر رہے ہیں، ہمیں بھی تو بتائیں کہ کیا نہیں ہو سکتا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے سفر میں حضرت سراقہ بن مالکؓ سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی، اب کسریٰ ختم ہو گیا ہے اور اس کے خزانے آگئے ہیں لیکن وہ کنگن نہیں مل رہے، یہ کیسے ممکن ہے؟
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں، ہم اسی پریشانی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ فوج کا ایک سپاہی آیا اور سلام عرض کیا۔ اس کے پاس ایک پوٹلی تھی جو اس نے حضرت عمرؓ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ امیر المؤمنین! میں اس لشکر میں تھا جس نے کسرٰی کے خلاف جنگ لڑی ہے، میں واپسی میں راستے میں بیمار ہو گیا تھا اور ایک گاؤں میں ٹھہر گیا تھا، دو دن لیٹ ہو گیا ہوں، میرے پاس آپ کی ایک امانت ہے۔ اس نے پوٹلی پیش کی، اس کو کھولا تو اس میں کسرٰی کے کنگن تھے۔ سونے کے کنگن کی اپنی قیمت تھی اور کسرٰی کے کنگن ہونے کی اپنی قیمت تھی جنہیں ایک عام سپاہی سنبھال کر لا رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ سونے کے کنگن راستے میں کہیں بھی غائب ہو سکتے تھے لیکن ایک عام سپاہی کے ہاتھ بادشاہ کے کنگن آگئے تو وہ کہیں غائب نہیں ہوئے بلکہ اس نے خود اٹھائے اور امانت کے ساتھ پیش کر دیے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس قوم کے سپاہی اتنے دیانت دار ہوں اس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے؟ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ حضرت! بات یہ ہے کہ جس قوم کا امیر آپ جیسا دیانتدار ہو اس قوم کے سپاہی بھی ویسے ہی ہوں گے، بات سپاہی کی نہیں بات امیر کی ہے۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جب جہاد کے لیے کہا جائے تو زمین میں نہ دھنسو بلکہ میدان میں آؤ ’’ان تنصروا اللہ ینصرکم‘‘ اللہ تمہاری مدد کرتا ہے بشرطیکہ تم اللہ کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ گھر بیٹھے ہوؤں کی، اپنی عیاشیوں میں الجھے ہوؤں کی مدد نہیں کرتے، یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اہل ایمان کی آزمائش کرتا ہوں، غزوہ احزاب کا منظر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے ’’يا ايھا الذين آمنوا اذكروا نعمۃ الله عليكم اذ جاءتكم جنود‘‘ (الاحزاب ۹) اے اہل ایمان! اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب چاروں طرف سے کفار کے لشکر مدینہ پہ چڑھ دوڑے تھے اور مدینہ کو گھیر لیا تھا اور تمہاری کیفیت یہ تھی ’’اذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا‘‘ (الاحزاب ۱۰) کہ خوف کے مارے تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور دل اچھل کر حلق میں پھنس گئے تھے اور اللہ کی مدد کے بارے میں تم بدگمانیوں کا شکار ہونے لگے تھے۔ ’’ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا‘‘ (الاحزاب ۱۱) مومنوں کو آزمائش میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس وقت کی امتِ مسلمہ کو ہلا کر رکھ دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ آزمائش تو میں کرتا ہوں کہ تم نکلے ہو یا نہیں ، میدان میں آئے ہو یا نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب آزمائش انتہا تک پہنچی تو ’’فارسلنا علیھم ریحاً وجنودًا لم تروھا‘‘ (الاحزاب ۹ ) ہم نے کفار پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے۔ جس لشکر نے مدینہ کو گھیرا ہوا تھا اور طے کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ مدینہ کو اجاڑ کر جانا ہے، ان کے خیمے لگے ہوئے تھے اور ان میں چولہے جل رہے تھے۔ رات کا وقت تھا، اللہ تعالیٰ نے ہوا کی رفتار تیز کر دی، آندھی آئی، چولہے الٹے اور خیمے جلنے شروع ہو گئے۔ وہ لشکر جو مدینہ منورہ کی آبادی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایک ماہ سے عزم کیے بیٹھا تھا اسے بھاگنے کے لیے راستہ ہی نہیں ملا۔ اللہ پاک نے کیسا ہی خوبصورت جملہ فرمایا ہے ’’و رد اللہ الذین کفروا بغیظھم لم ینالوا خیرا‘‘ (الاحزاب ۲۵) کہ جتنے بھی لشکر آئے تھے ہم نے ایسے پلٹایا کہ ان کے غصے سمیت انہیں واپس کر دیا، وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے۔
اللہ رب العزت نے ہمیں سمجھانے کے لیے یہ ذکر کیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم تبوک میں پیچھے رہنے والے منافقین کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے ساتھ جانے والے مجاہدین کا راستہ اختیار کر سکیں۔ آج ہم پھنسے ہوئے ہیں، غزہ تباہی کا شکار ہے، فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور ہم آپس کی عیاشیوں اور لڑائیوں کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حوصلہ عطا فرمائیں۔ مجھ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ ہم کیا دعا مانگیں؟ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے حوصلہ مانگیں اور اپنے حکمرانوں کے لیے غیرت مانگیں، آج پوری دنیا کے مسلمان حکمران جتنی بے حمیتی دکھا رہے ہیں تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی، اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو غیرت دیں، ہمیں حوصلہ دیں اور اس آزمائش میں ہمیں سرخرو فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔