روزنامہ پاکستان ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی ربی موردافے الیاہو نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ فلسطینی عورتوں اور بچوں کا قتل عام جائز ہے اور ایسا اقدام کرنے والوں کو مجرم تصور نہ کیا جائے بلکہ اگر دس لاکھ فلسطینی بھی قتل ہو جائیں تو پرواہ نہ کی جائے۔مڈل ایسٹ اسٹڈی سنٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جو کاروائی ہو رہی ہے وہ یہودی ربی کے بقول یہودیوں کی ان تعلیمات کے مطابق ہے جن میں کہا گیا ہے کہ دشمنوں کو اجتماعی سزا دی جائے۔
غزہ میں اسرائیل نے گزشتہ کئی ہفتوں سے جو قیامت ڈھا رکھی ہے اور مظلوم فلسطینیوں کا عورتوں اور بچوں سمیت جو وحشیانہ قتل عام کیا ہے اس پر پوری دنیا صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے اور عالم اسلام کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر عالمی طاقتیں اسرائیلی درندگی کا راستہ روکنے کی بجائے اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور امریکی راہنماؤں کی طرف سے کھلم کھلا یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جو وحشیانہ کاروائیاں کر رہا ہے اسے اپنے دفاع کے لیے اس کا حق حاصل ہے۔اس ماحول میں اسرائیل کے مذہبی راہنما کا یہ بیان نہ صرف مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے بلکہ اسرائیل کے اصل عزائم کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کو مکمل طور پر کچل کر ان کی لاشوں اور کھنڈرات پر اپنے اقتدار اور بالادستی کا محل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اسلام کے فریضۂ جہاد پر، جس میں بچوں، عورتوں اور غیر متعلقہ لوگوں کو حالتِ جنگ میں بھی قتل کی صریح ممانعت ہے، اعتراض کرنے اور اسے مذہبی جنون قرار دینے والی عالمی طاقتوں کو یہودیوں کی یہ اشتعال انگیزی نظر نہیں آتی اور وہ یہودیوں کی طرف سے ان وحشیانہ عزائم کے کھلم کھلا اظہار کے باوجود ان کی پشت پناہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہودیوں کی وحشت و بربریت، صہیونی قیادت کے خوفناک عزائم اور ان کے مغربی آقاؤں کی طرف سے ان کی پشت پناہی نہیں بلکہ فلسطین کے مسئلہ پر مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی ہے۔بدقسمتی سے مسلم حکمرانوں کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ مسلم ممالک میں موجود یہ مزاحمتی تحریکیں خود ان کے لیے خطرہ ہیں، اس لیے وہ انہیں کچلنے میں استعماری ملکوں اور قوتوں سے زیادہ اطمینان محسوس کر رہے ہیں۔ حالانکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ یہ بچی کچھی مزاحمتی تحریکیں خود مسلم حکمرانوں کے لیے بھی آخری دفاعی لائن کی حیثیت رکھتی ہیں، جس دن خدانخواستہ یہ مزاحمتی تحریکیں دم توڑ گئیں ان مسلم حکمرانوں کی رہی سہی آزادی بھی باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران آنکھیں کھولیں اور معروضی حقائق کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے عالم اسلام کی وحدت، مظلوم اقوام کی عملی امداد اور ملت اسلامیہ کی خود مختاری کی بحالی کے لیے ٹھوس مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔