روزنامہ جنگ لاہور ۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء کی خبر کے مطابق امریکہ میں خاوند کے بغیر رہنے والی خواتین اب اکثریت اختیار حاصل کر گئی ہیں۔ خبر کے مطابق نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۰۰ء میں بغیر خاوند کے رہنے والی خواتین کا تناسب ۴۹ فیصد تھا جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر ۵۱ فیصد ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ طلاق یا بیوہ ہونے کی صورت میں عورتیں دوسری شادی سے گریز کرنے لگی ہیں اور رفتہ رفتہ ایسی عورتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چند روز قبل اسی نوعیت کی ایک اور خبر بھی اخبارات کی زینت بنی تھی کہ امریکہ میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب چالیس فیصد تک پہنچ گیا ہے اور اس میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ چالیس فیصد بھی اس صورت میں کہ امریکہ میں مانع حمل ادویات اور اسقاط حمل کی سہولتیں آزادانہ طور پر میسر ہیں اور ان کے کھلم کھلا استعمال کے باوجود جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ چالیس فیصد کی حد کو کراس کر رہے ہیں، ایک لمحہ کے لیے یہ تصور کر لیجئے کہ مذکورہ بالا سہولتیں اگر میسر نہ ہوں تو ظاہری اسباب کے حوالہ سے اس تناسب کی کیا صورت سامنے آ سکتی ہے۔
یہ سب کچھ فطری نظام سے انحراف کا منطقی نتیجہ ہے اور اس میں امریکہ تنہا نہیں بلکہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اکثر مغربی ممالک کی صورتحال کم و بیش اسی طرح کی ہے۔ قرآن کریم اور اس سے قبل آسمانی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات میں نکاح، خاندان اور رشتہ داروں کا جو نظام نسل انسانی کو دیا گیا تھا اس کے ذریعہ خاندان وجود میں آتا تھا اور رشتوں کا وجود اور تقدس قائم ہوتا ہے۔ اب بھی جن اقوام و ممالک میں اس حوالہ سے آسمانی تعلیمات اور انبیاء کرام علیہم السلام کی ہدایات کا احترام موجود ہے وہاں خاندانی نظام اور باہمی رشتوں کا تصور قائم ہے اور لوگ ان کی برکات سے بہرہ ور ہو رہے ہیں، لیکن جن اقوام و ممالک نے مرد اور عورت کی مصنوعی مساوات اور انسانی خواہشات کی پیروی کو وحی الٰہی اور اور آسمانی احکامات پر ترجیح دے دی ہے وہ نہ صرف رشتوں کے تقدس اور احترام سے محروم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ان کا خاندانی نظام بھی پراگندگی کا شکار ہوگیا ہے۔
قرآن کریم نے شاید اسی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ھل عسیتم ان تولیتم أن تفسدوا فی الأرض وتقطعوا أرحامکم‘‘ (سورۃ محمد) کیا قریب نہیں ہے کہ اگر تم حکمران بن گئے تو زمین میں فساد پھیلاؤ گے اور رشتوں کو توڑ کر رکھ دو گے۔ اب مغرب کو اپنے خاندانی نظام کے سبوتاژ ہونے کی فکر لاحق ہے اور موجودہ پاپائے روم شادی اور نکاح کی اہمیت کی طرف اپنے پیروکاروں کو دوبارہ توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے آسمانی تعلیمات اور انبیاء کرامؑ کی ہدایات و فرامین کی طرف واپس آنا ضروری ہے، اس کے بغیر نہ رشتوں کا تقدس بحال ہوسکتا ہے اور نہ ہی خاندانی نظام کو استحکام مل سکتا ہے۔