روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد (۱۲ دسمبر) کی خبر کے مطابق حکومت اور دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان مبینہ طور پر طے پانے والے معاہدہ کے مطابق نئے مجوزہ سسٹم کے تحت دینی مدارس کے کوائف مرتب کرنے اور ان کی رجسٹریشن کا کام شروع ہوگیا ہے اور متعلقہ محکموں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ جبکہ کوائف کے سوالنامہ میں اس خبر کے مطابق آمدنی کے ذرائع بتانے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔
یہ نیا سلسلہ کیا ہے اور اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ متعلقہ محکموں اور ان کے افسران کے طرز عمل سے سارا منظر چند روز تک واضح ہو جائے گا، البتہ ان کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان پر ایک نظر ڈال لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے معروف عالم دین اور پنجاب اسمبلی کے سابق رکن مولانا صاحبزادہ سید محفوظ احمد مشہدی، مولانا نصیر احمد اویسی کے ہمراہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لائے جو اہل سنت و جماعت بریلوی مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام میں سے ہیں اور مختلف دینی تحریکات میں ان کے ساتھ میری رفاقت ایک عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ انہوں نے دینی مدارس کے حوالہ سے نئے مبینہ نظام کے بارے میں کچھ تحفظات کا اظہار کیا جس میں سب سے بڑی بات ان کے خیال میں یہ ہے کہ دینی مدارس کا نصاب و نظام اور مالیاتی و انتظامی کنٹرول مکمل طور پر محکمہ تعلیم کے حوالہ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے بقول دینی مدارس کے وفاقوں اور حکومت کے درمیان تمام معاملات طے پا چکے ہیں اور عملی اقدامات کا سلسلہ چند روز میں شروع ہونے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دینی مدارس اپنا آزادانہ دینی و تعلیمی کردار و نظام باقی رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا ہوگا اور اس کی روک تھام کی کوئی صورت نکالنا ہوگی ورنہ مشہدی صاحب کے بقول ہم ۱۸۵۷ء کے بعد کے اس ماحول میں واپس چلے جائیں گے جب برطانوی حکومت نے سابقہ دینی تعلیمی نظام کی پوری بساط لپیٹ کر رکھ دی تھی اور دینی تعلیم و ماحول کو باقی رکھنے کے لیے علماء کرام کو زیرو پوائنٹ سے اپنے تعلیمی سفر کا دوبارہ آغاز کرنا پڑا تھا۔
دینی مدارس کے موجودہ نظام کے بارے میں عالمی استعمار کے ایجنڈے بالخصوص امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی رپورٹ کے بعد سے ہمیں بھی یہی محسوس ہو رہا ہے مگر پاکستان میں دینی مدارس کے منظم وفاقوں اور ان کے درمیان رابطہ و اشتراک کو دیکھ کر ایک حد تک اطمینان رہتا ہے کہ عالمی استعمار اس ایجنڈے میں شاید پیشرفت نہ کر پائے۔ جبکہ مشہدی صاحب اس سے مطمئن نہیں ہیں، ان کے خیال میں صورتحال اتنی اطمینان بخش دکھائی نہیں دیتی اور خدشات و تحفظات کی سنگینی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ میں نے ان سے گزارش کی ہے کہ دینی مدارس کے آزادانہ دینی و تعلیمی نظام و کردار کا تحفظ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس لیے ان کے خدشات و تحفظات پر دوستوں سے مشاورت کروں گا اور اس کے بعد کسی رائے کا اظہار کروں گا۔ چنانچہ اس سے اگلے روز جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ھمک اسلام آباد میں کچھ دوستوں کے ساتھ اس حوالہ سے مشاورت کا موقع مل گیا۔ اس مشاورت میں ہمارے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان خدشات و تحفظات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں مشاورت و تحریک کی بہرحال ضرورت ہے مگر اس کے لیے بہتر فورم دینی مدارس کے وفاق اور ان کا باہمی مشاورتی نظام ہی ہو سکتا ہے، ہمیں اپنے خدشات و تحفظات اور شکایات و تجاویز کے بارے میں ان سے بات کرنا ہوگی اور اگر کہیں کوئی جھول یا خلا محسوس ہو رہا ہے تو اس کے لیے ہمیں اسی دائرے میں کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ ہم کچھ دوستوں نے غیر رسمی طور پر ایک مشاورتی صورت طے کی ہے جس کے نتائج چند روز تک سامنے آنا شروع ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔
نئے مجوزہ تعلیمی سسٹم کے حوالہ سے ایک تحفظ میرے ذہن میں بھی ہے جس کا مختلف سطحوں پر مسلسل اظہار کر رہا ہوں اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلٰی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے علاوہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ کے سربراہ مولانا عبد المالک خان سے بھی براہ راست گفتگو کر چکا ہوں کہ میٹرک یا ایف اے کی سطح تک دینی مدارس اور سکولوں کے جس مشترکہ تعلیمی نصاب کی تیاری کے لیے مختلف گروپ کام کر رہے ہیں اور بیشتر کام میری معلومات کے مطابق مکمل کر چکے ہیں، ان میں دینی تعلیم کے ماہرین کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ عملی کام کرنے والے گروپوں میں سیکولر عناصر کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ میرے خیال میں یہ کام مکمل ہونے کے بعد جب دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادتوں کے سامنے آخری منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا تو ان کے لیے من و عن منظور کر لینے یا مکمل طور پر مسترد کر دینے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہ جائے گا۔ دونوں صورتوں میں نتائج کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ دینی و عصری تعلیم کے مشترکہ نصاب کی تدوین و تشکیل میں دینی تعلیم کے ماہرین کو نظرانداز کر دینے اور انہیں اس عمل سے باہر رکھنے کا باعث کیا ہے؟ اور کیا اس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینے کی ضرورت نہیں ہے؟ اس سلسلہ میں تازہ معلومات کے مطابق ہمارے ایک فاضل دوست مولانا عمران جاوید سندھو کو ان میں سے کسی کمیٹی میں اب شامل کیا گیا ہے جو اچھی بات ہے، مگر ہمارے خیال میں یہ محض اشک شوئی ہے اس لیے کہ اصل ضرورت دینی و عصری تعلیم کے مشترکہ نصاب کی تدوین و تشکیل کے لیے ہر دائرہ میں اور ہر سطح پر مشترکہ کام اور ماحول کی ہے جس کے بغیر یہ عمل یکطرفہ اور ادھورا رہے گا اور اسے ملک بھر میں دینی تعلیم کے مجموعی ماحول کے لیے قابل قبول بنانا مشکل ہوگا۔ جبکہ لگتا یہ ہے کہ یہ سب باتیں نظرانداز کر کے اور تمام نتائج و عواقب سے بے نیاز ہو کر کچھ قوتوں نے یہ کام ہر حال میں کر گزرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اصحاب رخصت کے لیے تو زیادہ آزمائش کا باعث نہیں ہوگا مگر اصحاب عزیمت کو شاید ۱۸۵۷ء کے بعد کے زیروپوائنٹ سے اپنا کام دوبارہ مسجد کی چٹائیوں اور محلہ کی روٹیوں سے شروع کرنا پڑ جائے، انہیں بہرحال ذہنی طور پر اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔