امریکہ کا صدارتی امیدوار ’’باراک حسین اوباما‘‘

   
جنوری ۲۰۰۸ء

روزنامہ وقت لاہور ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ ء کی ایک خبر کے مطابق نیویارک کے سابق گورنر باب کیری نے آئندہ انتخاب کے ایک امریکی صدارتی امیدوار باراک اوباما سے اس بات پر معافی مانگ لی ہے کہ انہوں نے ایک اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے دوران باراک اوباما کے اسلامی تشخص کو نمایاں کرنے کی کوشش کی تھی۔ باب کیری نے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا ہے کہ انہوں نے باراک اوباما کو خط لکھا ہے جس میں ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران ان کے اسلامی تشخص کا ذکر کر کے ان کے صدارتی امیدوار کی حیثیت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔ ادھر اوباما کے ترجمان بل برٹن نے کہا ہے کہ اوباما نے باب کیری کی معذرت کو تسلیم کر لیا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ بات شاید اوباما کو اچھی نہ لگے لیکن میں یہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ ان کا پورا نام باراک حسین اوباما ہے، ان کے والد مسلمان تھے اور ان کی دادی بھی مسلمان تھیں۔

باراک اوباما اگلے سال کے آخر میں ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن کے امیدواروں میں شامل ہیں اور ان کا یہ خاندانی پس منظر کہ ان کے والد اور دادی مسلمان تھے امریکی پریس میں مسلسل زیر بحث ہے، جبکہ ان کے ترجمان بل برٹن نے اس میں یہ بات شامل کر کے بحث کو اور زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے کہ خود باراک اوباما کا نام بھی باراک حسین اوباما ہے۔

اس بحث کے دیگر تمام پہلوؤں سے قطع نظر ہم اس موقع پر اس حوالہ سے اس کا ذکر کرنا چاہیں گے کہ امریکی معاشرہ میں آپ کو ایسے بے شمار افراد مل جائیں گے جن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے مگر وہ وقت گزرنے کے ساتھ امریکی معاشرہ میں پوری طرح ضم ہونے کے باعث اپنے مذہبی تشخص سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ غالباً اٹھارہ سال قبل کی بات ہے کہ شکاگو میں میری حاضری کے موقع پر ایک پاکستانی دوست نے اپنے ایک غیر مسلم پڑوسی لڑکے کا ذکر کیا جس کا نام ’’علی‘‘ تھا۔ میں نے تعجب سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں بتایا کہ اس لڑکے کے والدین سے اس کی وجہ پوچھی گئی تھی جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد میں یہ نام پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اسی سفر کے دوران خود میرے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ نیویارک میں گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس میں میڈیکل چیک اپ کے لیے گیا تو اسپینشن نسل کی ایک نوجوان لڑکی نے میرے بازو سے سرنج کے ذریعے خون حاصل کیا، میں نے اس وقت ایک دعا پڑھی جس پر اس لڑکی نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ یہ دعا جو ان مولوی صاحب نے پڑھی میری دادی مجھے گود میں لیے ہوئے پڑھا کرتی تھی اور مجھے یاد ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق امریکہ میں مسلمان چار مرحلوں میں گئے ہیں:

  1. جس زمانہ میں امریکہ دریافت ہوا اسی دور میں اندلس مسلمانوں کے قبضے سے نکل گیا تھا اور صلیبی حکمرانوں نے اندلس پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو زبر دستی مسلمان بنانے کی مہم شروع کر دی تھی، اس دوران جبر و تشدد سے تنگ آکر ہزاروں لوگ وہاں سے ہجرت کر کے نکلے تھے جن کی ایک بڑی تعداد امریکہ کی طرف گئی اور ان میں سے جو لوگ وہاں پہنچ پائے وہ رفتہ رفتہ دو تین مرحلوں کے بعد عیسائی ہو گئے۔
  2. امریکہ میں اب سے کچھ عرصہ پہلے تک غلاموں کی خرید و فروخت جاری تھی اور ان کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں، امریکی تاجر افریقہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو بحری جہازوں میں بھر کر ملازمت دلانے کے بہانے امریکہ لے آتے تھے اور منڈیوں میں فروخت کر دیتے تھے، بتایا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت مسلمان تھی۔
  3. تیسرے مرحلہ میں جب مشرقی یورپ میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد دیندار مسلمانوں کو یہ علاقہ چھوڑ نا پڑا تو ان کی اچھی خاصی تعداد نے امریکہ کا رخ کیا۔
  4. جبکہ چوتھے مرحلہ میں گذشتہ نصف صدی کے دوران مختلف مسلم ممالک سے روزگار کی تلاش میں جانے والے لاکھوں مسلمان ہیں جو امریکہ کے مختلف شہروں میں آباد ہیں، البتہ اس آخری مرحلہ میں وہاں جانے والے مسلمانوں نے اپنے مذہبی تشخص اور کلچر کے تحفظ کے لیے سنجیدگی دکھائی ہے جس کے نتیجے میں اب امریکہ میں مسلمانوں کا مذہبی امتیاز اور جداگانہ وجود نہ صرف نظر آرہا ہے بلکہ اسے تسلیم بھی کیا جا رہا ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter