آج ایک قومی اخبار کے گوجرانوالہ ایڈیشن میں مقامی صفحہ کی اس بڑی سرخی نے بار بار اپنی طرف متوجہ کیا کہ ’’ایماندار ایس ایچ اوز کی تلاش، ریجن بھر کے پولیس انسپکٹروں کے کوائف طلب‘‘۔ ہمارے موجودہ معاشرتی ماحول میں یہ کوئی بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ صرف پولیس نہیں بلکہ کم و بیش ہر شعبہ اور ادارہ میں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے کہ ایماندار افراد تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ اس پر اسلامی تاریخ کے دو حوالے ذہن میں آگئے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔
حضرت عمر بن الخطابؓ کے زمانہ خلافت میں جب فارس و ایران فتح ہوا اور کسرٰی بادشاہ کے خزانے مفتوحہ غنیمت کی صورت میں مدینہ منورہ لائے گئے تو تاریخی روایات کے مطابق امیر المومنین حضرت عمرؓ کافی دیر اس کے ڈھیروں اور گٹھڑیوں میں کوئی چیز تلاش کرتے رہے اور بے چینی اور اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ ایک دو روز اسی کیفیت میں گزرے تو ان سے اس اضطراب کی وجہ پوچھی گئی، انہوں نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے سفر کے دوران سراقہ بن مالکؓ سے فرمایا تھا کہ وہ ان کے ہاتھ میں کسرٰی کے کنگن دیکھ رہے ہیں۔ آج کسرٰی کے خزانے تو آگئے ہیں مگر دو روز سے ان کنگنوں کی تلاش میں ہوں جو نہیں مل رہے۔ جبکہ بے چینی اس بات پر ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیشگوئی فرمائی ہو اور وہ پوری نہ ہو رہی ہو۔
ایک اور دن اسی حالت میں گزر گیا تو ایک مسافر مدینہ منورہ پہنچا اور حضرت عمرؓ کی مجلس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ امیر المومنین! میں کسرٰی کے خلاف لڑنے والی مسلمان فوج کا ایک سپاہی ہوں، واپسی پر راستہ میں کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے لیٹ ہوگیا تھا اور آج مدینہ منورہ پہنچا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے ایک چھوٹی سی گٹھڑی حضرت عمرؓ کے سامنے رکھ دی کہ یہ مال غنیمت کا ایک حصہ ہے جو امانت کے طور پر میں نے سنبھال رکھا ہے اور آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ گٹھڑی کھولی گئی تو اس میں کسرٰی بادشاہ کے سونے کے کنگن تھے جنہیں دیکھ کر حضرت عمرؓ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور سراقہ بن مالکؓ کو بلا کر ان سے پوچھا کہ کیا انہیں ہجرت کے سفر والا قصہ یاد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی طرح یاد ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مرد کے لیے سونے کا زیور پہننے کی اجازت نہیں ہے لیکن میں جناب رسول اللہؐ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لیے تمہیں تھوڑی دیر کے لیے کسرٰی بادشاہ کے یہ سونے کے کنگن پہنا رہا ہوں۔
اس موقع پر حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ بھی موجود تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس سپاہی کی دیانت و امانت کی تعریف کرتے ہوئے ان سے فرمایا کہ جس قوم میں اس طرح کے دیانت دار سپاہی موجود ہوں اسے دشمن سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ نے کہا کہ امیر المومنین! بات سپاہی کی نہیں امیر المومنین کی ہے کہ جب قوم کو آپ جیسے دیانت دار اور امین حکمران میسر ہیں تو اس کے عام سپاہیوں میں بھی یقیناً دیانت و امانت موجود ہوگی۔
اس لیے بات ایس ایچ اوز یا دیگر محکموں کے افسران کی نہیں ہے بلکہ حکمران طبقہ اور رولنگ کلاس کی ہے کہ ان میں امانت و دیانت ہوگی تو افسران اور ملازمین پر بھی اس کے اثرات ہوں گے لیکن اگر رولنگ کلاس اول سے آخر تک کرپشن اور نا اہلی میں ڈوبی ہوئی ہوگی تو نچلے طبقات میں ایماندار افسران ’’تلاش‘‘ ہی کرنا پڑیں گے اس لیے کہ ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘ عام لوگ اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کے طریقوں پر ہی چلتے ہیں۔
دوسرا حوالہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کا ہے جو حالات میں تبدیلی اور تغیر کا شکوہ کرتے ہوئے بخاری شریف کی ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں تو صورتحال یہ تھی کہ ہم بلاخوف و خطر ہر شخص سے معاملہ اور بیع و شراء کر لیا کرتے تھے اور ہمیں اعتماد ہوتا تھا کہ اگر یہ مسلمان ہے تو اس کا ایمان اسے ہمارے ساتھ کوئی گڑبڑ کرنے سے روکے گا، اور اگر غیر مسلم ہے تو بھی ساعی یعنی حاکم اسے ایسا کرنے نہیں دے گا۔ ساعی اور حاکم سے مراد نظام ہے کہ ہمارا نظام اس قدر مستحکم اور اعتماد سے بھرپور ہے کہ اس میں کوئی شخص کسی دوسرے سے بے ایمانی اور گڑبڑ نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں حضرت حذیفہؓ فرما رہے ہیں کہ ایمان کی مضبوطی اور نظام کی شفافیت ہی معاشرے میں بد دیانتی کی روک تھام کرتی ہیں۔
اس لیے ایماندار ایس ایچ اوز اور دیانت دار افسران کی تلاش کرنے والوں سے گزارش ہے کہ اس کا راستہ افراد کی تلاش میں نہیں بلکہ یہ ہے کہ
- حکمران طبقات اور رولنگ کلاس کو حضرت عمرؓ کی دیانت و امانت اور گڈ گورننس سے آگاہ کر کے انہیں اس کی پیروی کے لیے تیار کیا جائے،
- نظام و قانون کی شفافیت اور عدل و انصاف کے بلا امتیاز اہتمام کو یقینی بنایا جائے،
- اور ہر سطح پر ایمان و عمل صالح کی فضا قائم کرنے کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی اتباع اور حضرات صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفاء راشدینؓ کے نقش قدم پر چلنے کا ذوق بیدار کیا جائے۔
- اس سلسلہ میں ایک تجویز یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان ہمہ گیر اخلاقی تربیتی کورسز مرتب کرے اور تمام قومی اداروں اور محکموں میں بھرتی ہونے والے افراد کو درجہ بدرجہ ان کورسز سے گزارا جائے۔ کورسز مرتب کرنے کے لیے علماء و مشائخ اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ دینی و عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ اور ان کورسز کے اثرات و نتائج جانچنے کے لیے بھی ایک نظام وضع کیا جائے تاکہ مثبت اور منفی پہلوؤں کی روشنی میں انہیں بہتر سے بہتر بنانے کے سلسلہ میں اقدامات کیے جاتے رہیں۔