عاشورۂ محرم الحرام اور اس کے تقاضے

   
جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور
۹ جولائی ۲۰۲۴ء

۹ جولائی ۲۰۲۴ء کو جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں ہفتہ وار درس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ نئے ہجری سال کا آغاز ہو گیا ہے اور محرم الحرام کے پہلے عشرہ کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اس عشرہ کے حوالہ سے ایک روایت تو دورِ اسلام سے قبل کی چلی آ رہی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے یہودی دس محرم الحرام کو روزہ رکھتے ہیں۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعون کی آزادی سے نجات ملی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر بحیرۂ قلزم پار کر گئے تھے اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا تھا، ہم اس کے شکرانے میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نحن احق بموسیٰ منکم‘‘ ہمارا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ تعلق ہے، اس لیے ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دس محرم کو روزہ رکھتے تھے، جس میں آخری سال یہ اضافہ فرمایا کہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے ہم اس کے ساتھ ایک اور روزہ بھی ملائیں گے۔ چنانچہ دس محرم کے ساتھ نو یا گیارہ کا روزہ بھی امت میں رکھا جا رہا ہے جو نفلی روزہ ہے مگر اس کا ثواب بہت زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد ہماری اسلامی تاریخ کے دو اہم واقعات بھی اس عشرہ سے وابستہ ہو گئے جن کی یاد ہر سال ہمارے ماحول میں لوگ اپنے اپنے انداز میں تازہ کرتے ہیں۔ یکم محرم الحرام امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے، اس مناسبت سے ان کی خدمات، فضائل اور کارناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ دس محرم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خانوادۂ نبوت کے دیگر عظیم شہداء کی یاد تازہ کرتا ہے اور مختلف انداز میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

اس حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنے بزرگوں کی یاد تازہ رکھنا اور ان کا تذکرہ کرتے رہنا ہماری دینی ضرورت ہے، اس سے ان کے ساتھ ہماری نسبت کا اظہار ہوتا ہے، ان بزرگوں کے تذکرہ سے برکات ملتی ہیں، اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور اجر و ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر ان سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے راہنمائی ملتی ہے اور زندگی کے مسائل میں سبق حاصل ہوتا ہے۔

سیدنا حضرت امیر المومنین عمر بن الخطابؓ کے بے شمار فضائل و امتیازات کے ساتھ تاریخ ان کو اس حوالہ سے زیادہ یاد کرتی ہے کہ وہ ایک متصف اور عادل حکمران تھے جن کے عدل و انصاف کو تمام ممالک و اقوام میں نمونہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور آج بھی مختلف اقوام ان سے راہنمائی حاصل کرتی ہیں۔

اسی طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل و مناقب اور امتیازات و خصوصیات میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کی حق گوئی اور حق کی خاطر ان کے ڈٹ جانے اور قربانی پیش کرنے کا کیا جاتا ہے جو ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ انہوں نے جس کو ظلم سمجھا اس کے خلاف ڈٹ گئے اور جس کو نا اہل سمجھا اس کی اطاعت قبول نہیں کی حتیٰ کہ اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا اور حق اور انصاف کی خاطر ڈٹ جانے کی علامت بن گئے۔

آج ان دونوں بزرگوں کی یاد میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد کریں اور نا انصافی اور نااہلی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بجائے اس کے خلاف ڈٹ جائیں اور اس کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کریں۔

اس کے ساتھ عشرۂ محرم الحرام کے حوالہ سے دو باتیں اور کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ ان دنوں مجالس اور اجتماعات میں کثرت سے یہ بیانات ہوتے ہیں اور عام طور پر حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کی بڑی شخصیات کو گفتگو کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک تو اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم سب کے سب ہمارے قابلِ احترام اور واجب التعظیم ہیں۔ ان میں سے کسی بھی شخصیت کی ہلکی سی اہانت بھی جرم ہے جس سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارے بعض واعظین کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ وہ شخصیات کا باہمی تقابل کر کے خطابت کا بازار گرم کرتے ہیں، یہ درست بات نہیں ہے۔ کسی شخصیت کی خوبیاں، فضائل اور کارنامے تو ذکر کرنا ضروری ہے مگر کسی دوسری شخصیت کے ساتھ اس کا تقابل کر کے ترازو پر ان کو تولنا درست نہیں ہے۔ کوئی بھی دو شخصیتیں یا دو طبقے آمنے سامنے کھڑے کر کے ان کے درمیان تقابل کریں گے تو کسی نہ کسی کی تنقیص اور اہانت کا کوئی پہلو ضرور سامنے آجائے گا جس سے ہر ممکن گریز کرنا ضروری ہے۔

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان فضیلت کے درجات مسّلمہ بات ہے مگر سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ مجھے حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت نہ دی جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ فضیلت موجود نہیں ہے بلکہ ارشادِ نبویؐ کا مقصد یہ ہے کہ تقابل کرنے سے کسی نہ کسی کی تنقیص ہو جاتی ہے اس لیے تقابل نہ کیا جائے۔ یہی گزارش میں حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان بزرگوں میں سے جس کی چاہیں تعریف کریں، فضائل بیان کریں اور ان کے کارناموں اور خدمات کا تذکرہ کریں مگر کسی دوسرے بزرگ کے ساتھ تقابل کر کے اپنے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

جبکہ آخری گزارش یہ ہے کہ ان دنوں میں ملک بھر میں امن و امان قائم رکھنے کا بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے جو ملک کی ضرورت اور قومی وحدت کا تقاضہ ہے۔ امن قومی سطح پر بھی، علاقائی ماحول میں بھی اور شہری سطح پر بھی ہم سب کی ضرورت ہے، سب کو اس کا خیال رکھنا چاہیے اور امن قائم رکھنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کر کے امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے بزرگوں کی تعظیم، ادب و احترام اور اطاعت کی توفیق دیں اور ان کی حسنات کی پیروی کے ذوق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter