۵ مئی کو نماز مغرب کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم میں مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس بات کا تذکرہ ہوا کہ آج حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات کو ایک سال پورا ہوگیا ہے کہ گزشتہ سال ۵ مئی کو ان کا وصال ہوا تھا۔ اس سے کچھ ہی دیر بعد یہ غم ناک خبر ملی کہ حضرت خواجہ خان محمد صاحب کا ملتان میں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس خبر کے ساتھ ہی ہمارا ایک سال پہلے والا صدمہ پھر سے تازہ ہوگیا کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے انتقال کے بعد جن دو چار شخصیات کی سرپرستی، دعاؤں اور موجودگی کا سہارا ہمارے پاس باقی رہ گیا تھا، حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ ان میں سر فہرست تھے۔
میں نے ان کی پہلی بار زیارت غالباً ۱۹۶۷ء کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیۃ علمائے اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’آئین شریعت کانفرنس‘‘ کے موقع پر کی تھی۔ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کا جلوس کی شکل میں استقبال کیا گیا تھا اور قبائلی عوام اپنے روایتی انداز میں ان دونوں بزرگوں کو جلوس کے ساتھ شہر کے مختلف بازاروں میں گھما رہے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ براہ راست اس کانفرنس کے انتظامات کر رہے تھے اور ہمارے پرانے دوست خواجہ محمد زاہد صاحب، جنہوں نے ابھی کچھ عرصہ قبل جام شہادت نوش کیا ہے، کانفرنس کا انتظام کرنے والے نوجوانوں کی قیادت کر رہے تھے۔ مجھے اس سفر کے دوران خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی کہ میرے بڑے بہنوئی حاجی سلطان محمود خان صاحب ریلوے میں ڈیزل مکینک تھے اور ان دنوں ان کی ڈیوٹی کندیاں ریلوے جنکشن پر تھی جہاں وہ ایک کوارٹر میں اہل خانہ سمیت رہائش پذیر تھے۔ ان کے پاس گیا تو خانقاہ سراجیہ شریف میں بھی حاضری ہوئی، غالباً ایک رات قیام کیا تھا۔ حضرت خواجہ صاحبؒ موجود تھے، انہوں نے بہت شفقت کا اظہار فرمایا مگر میری دلچسپی کا بڑا حصہ خانقاہ شریف کی لائبریری سے وابستہ تھا جو اس وقت ملک کی اہم لائبریریوں میں شمار ہوتی تھی۔ میں نے اس دور میں مزارعت اور بٹائی کی حرمت کے حوالے سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے موقف کی تائید میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جو ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں قسط وار شائع ہوا تھا، اس مضمون کی بیشتر تیاری میں نے خانقاہ سراجیہ کی لائبریری میں کی تھی۔ اور حضرت خواجہ صاحبؒ کی آخری زیارت میں نے گزشتہ سال رجب کے دوران ایک سفر میں خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضری کے موقع پر کی۔ اس سفر میں مجھے خانقاہ سراجیہ میں حاضری کے علاوہ رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علیؒ کی قبر پر حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا۔
اس پہلی اور آخری ملاقات کے دوران نصف صدی کے لگ بھگ کا عرصہ ہے اور اس عرصہ میں حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ملاقاتوں کے وسیع سلسلہ کو اگر تین ہندسوں میں بھی بیان کروں تو شاید مبالغہ نہ ہو۔ پاکستان میں اور بیرون ملک ان کی خدمت میں حاضریوں اور ان کی دعاؤں و شفقتوں سے فیض یاب ہونے کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ وہ جمعیۃ علمائے اسلام کی مرکزی قیادت میں شامل تھے اور ایک عرصہ تک نائب امیر رہے۔ میں نے بھی کم و بیش ربع صدی کا عرصہ جمعیۃ علمائے اسلام میں ایک متحرک کارکن کے طور پر گزارا ہے اور سالہا سال تک جمعیۃ کے مرکزی عہدے داران کی ٹیم میں سیکرٹری اطلاعات کے طور پر شامل رہا ہوں۔ اس دوران جمعیۃ کے اجتماعات اور کانفرنسوں میں ان سے استفادہ کا موقع ملتا رہا ہے۔ وہ خاموش اور دعاگو بزرگ تھے، جلسوں میں گھنٹوں بیٹھے رہتے اور آخر میں دعا فرماتے۔ میں نے انہیں زندگی میں ایک ہی بار جلسہ عام میں مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ کہتے سنا ہے۔ یہ اکتوبر ۱۹۷۵ء کی بات ہے جب جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علمائے اسلام کا ’’قومی نظام شریعت کنونشن‘‘ تھا، ملک بھر سے ہزاروں علمائے کرام جمع تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام کی مرکزی و صوبائی قیادتیں موجود تھیں۔ کنونشن کی آخری نشست میں اسٹیج پر موجود اکابر علمائے کرام کو، جن میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا خواجہ خان محمدؒ، مولانا سید محمد شاہؒ امروٹی، مولانا سید محمد ایوب جان بنوریؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا عبد الغفور آف کوئٹہ، اور مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ جیسی بزرگ شخصیات بھی شامل تھیں۔ حضرت درخواستیؒ نے باری باری مائیک پر بلا کر ان سے نفاذ شریعت کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتے رہنے کا عہد لیا تھا۔ میں اس نشست کا اسٹیج سیکرٹری تھا اور خیر و سعادت کی یہ ساری کارروائی میرے ہاتھوں سر انجام پا رہی تھی، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔کل ہی ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کسی نے مولانا خواجہ خان محمدؒ کو کسی جلسے میں تقریر کرتے بھی دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تقریر کرتے تو نہیں البتہ ایک بڑے جلسہ عام میں مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ کہتے ضرور سنا ہے، اور یہ وہی موقع تھا جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔
میری تگ و تاز کا دوسرا بڑا میدان ہمیشہ سے تحفظ ختم نبوت کا محاذ رہا ہے اور اس سلسلہ میں کام کرنے والے ہر حلقے کے ساتھ تعاون کو اپنے لیے باعث نجات سمجھتا ہوں۔ اس محاذ میں حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی امارت میں سرگرم کردار ادا کرنے کی سعادت بھی مجھے حاصل رہی ہے اور بیسیوں اجتماعات اور اجلاسوں میں ان کے ساتھ رفاقت کے شرف سے بہرہ ور رہا ہوں۔ میں ان کے صبر و حوصلے کا ہمیشہ معترف رہا ہوں کہ وہ ختم نبوت کانفرنسوں میں گھنٹوں مسند صدارت پر تشریف فرما رہتے، توجہ کے ساتھ مقررین کے خطابات سنتے، ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی خطیبانہ اداؤں پر داد بھی دیتے، اور آخر میں ان کی پرخلوص اور پر نور دعا پر محفل کا اختتام ہوتا۔
یہ غالباً ۱۹۷۸ء کے لگ بھگ کا قصہ ہے کہ کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی نیم والی مسجد میں جمعیۃ علمائے اسلام کا جلسہ تھا جس میں میری تقریر تھی۔ یہ گرمیوں کا موسم تھا اور نماز عشاء کے بعد جلسے کی کارروائی شروع ہونے والی تھی کہ کسی دوست نے آکر خبر دی کہ مولانا خان محمد صاحبؒ کا انتقال ہوگیا ہے۔ جلسے کے منتظم حضرت پیر جی عبد الحکیمؒ تھے، ان کے ساتھ باہمی مشورے سے طے پایا کہ جلسے میں ایک تعزیتی تقریر کے بعد اس کے التواء کا اعلان کر دیا جائے اور پھر سفر کی تیاری کی جائے تاکہ صبح جنازے پر کندیاں شریف پہنچا جا سکے۔ چنانچہ جلسے کی کارروائی کو مختصر کر کے میں نے صرف بیس پچیس منٹ خطاب کیا، مولانا خان محمدؒ کی دینی و علمی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیا، اور پھر تعزیت کے طور پر جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد کندیاں شریف جانے کے لیے کرائے کی ویگن کا اہتمام کیا گیا، ہم گیارہ بجے کے لگ بھگ ویگن پر سوار ہونے کے لیے روڈ پر پہنچے تو میں نے پیر جی سے عرض کیا کہ مجھے چائے کی طلب ہو رہی ہے، سامنے والے اسٹال سے چائے پی لیتے ہیں اور ساتھ ہی گیارہ بجے والی خبریں ریڈیو سے سنتے ہیں، ممکن ہے جنازے وغیرہ کے پروگرام کی کوئی خبر ہو۔ چنانچہ جب خبریں سنیں تو معلوم ہوا کہ وفات پانے والے خواجہ خان محمد صاحب ہمارے کندیاں شریف والے بزرگ نہیں بلکہ کوئی اور ہیں۔ اس طرح چائے کے کپ کی طلب نے ہمیں کندیاں شریف کی طرف بے مقصد سفر کی صعوبت سے بچا لیا۔ بعد میں ایک موقع پر، شاید جمعیۃ علمائے اسلام کے کسی اجلاس میں، حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ نے مجھے اپنے پاس بلا کر آہستہ سے کان میں کہا کہ تمہاری وہ کمالیہ والی تقریر کسی نے ریکارڈ بھی کی تھی یا نہیں؟ میں نے پوچھا کہ حضرت آپ کو پتا چل گیا ہے؟ مسکرا کر فرمایا کہ ہاں پتا چل گیا ہے لیکن اگر وہ تقریر مل جائے تو سننا چاہتا ہوں۔
مولانا خواجہ خان محمدؒ سلسلہ نقشبندیہ سراجیہ کی ایک بڑی خانقاہ کے مسند نشین تھے، ان سے ہزاروں افراد نے، جن میں بڑی تعداد دینی کارکنوں اور علمائے کرام کی ہے، استفادہ کیا ہے۔ لیکن وہ صاحب علم صوفی تھے، تصوف کے رموز و اسرار سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان کے ثقہ شارح بھی تھے اور اب ان جیسے چند نفوس کے دم قدم ہی سے تصوف کا یہ جہاں آباد ہے۔ ایک بار امریکہ سے ایک نومسلم خاتون گوجرانوالہ آئیں، یہ نومسلم خاتون فلسفہ کی پروفیسر ہیں اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہوں نے حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی سے ملاقات کے دوران تصوف کے بعض حساس اور دقیق مسائل پر تبادلۂ خیالات کیا اور دریافت کیا کہ تصوف کے علمی مسائل اور اشکالات پر مجھے کس بزرگ سے بات کرنی چاہیے؟ حضرت صوفی صاحبؒ نے دو بزرگوں کے نام لیے کہ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ میں سے جن بزرگ سے بھی ملیں گی آپ کو اپنے اشکالات و سوالات کا تسلی بخش علمی جواب ملے گا۔
میں اس وقت حضرت خواجہ خان محمدؒ کے جنازے میں شرکت کے لیے سفر کی تیاری کر رہا ہوں اور جلدی جلدی یہ سطور تحریر کر رہا ہوں کہ حاضری میں تاخیر نہ ہو جائے مگر ان کی یادوں کے مختلف مراحل ذہن کی اسکرین پر بار بار نمودار ہو رہے ہیں۔ یادوں کا یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا کہ ان کے بعد ان کی یادیں ہی اب ہمارا سہارا ہیں۔ میں حضرت خواجہ صاحبؒ کے خاندان، جماعت، مریدین، معتقدین، اور متعلقین سے تعزیت کرتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ تعزیت تو سب حضرات کو مجھ سے کرنی چاہیے کہ ایک کارکن سے اس کا امیر رخصت ہوگیا ہے، ایک گناہ گار سے دعاؤں کا سہارا چھن گیا ہے، اور ایک راہرو سے اس کا رہبر جدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت خواجہ صاحبؒ کی حسنات قبول فرمائیں، کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں، اور تمام پسماندگان و متعلقین کو یہ عظیم صدمہ صبر و حوصلے کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے حضرت خواجہ صاحبؒ کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق فراواں فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔