دینی و عصری طبقات کے امتزاج کا خواب
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تین سالہ آن لائن درسِ نظامی اور ایک سالہ التخصص فی الدعوۃ والارشاد کورسز کے اختتام پر منعقدہ تقریبِ اعزاز سے خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے سب سے پہلے درسِ نظامی اور تخصص مکمل کرنے والے شرکاء اور اساتذہ کرام کو مبارکباد پیش کی اور آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ پچپن سال سے میرے ذہن میں ایک خواب اٹکا ہوا تھا جسے اب مکمل ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ جس طرح شیخ الہند رحمہ اللہ نے دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کو جوڑنے کی کوشش کی اور یہ فرمایا تھا کہ یہ دونوں ملیں گے تو کام بنے گا۔ امت کا کام، ملت کا کام، دین کا کام ان دونوں اداروں کے احباب کے ملنے سے ہو گا۔ ان دونوں کے تصور کو ملانے سے جو پہلی کھیپ تیار ہوئی اس میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان اور حکیم اجمل خان رحمہم اللہ تھے۔ پھر یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ میرے ذہن میں بھی یہ بات اٹکی ہوئی ہے کہ ان دونوں کو ایک ٹریک پر لانے کی کیا صورت ممکن ہے؟ اس حوالے سے بہت کچھ لکھتا اور بیان بھی کرتا رہا ہوں۔ دونوں ادارے ہماری قومی اور دینی ضرورت ہیں، ان اداروں کے امتزاج پر مجھے خوشی ہے اور اب تسلی ہے کہ پیچھے کھیپ تیار ہے جو اس مشن کو جاری رکھے گی۔
مولانا صلاح الدین صاحب واہ کینٹ سے اس تقریب کے لیے تشریف لائے، ان کی دعا سے تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ ان شاء اللہ عید کے بعد دونوں کورسز میں دوبارہ داخلے شروع ہوں گے۔
مساجد اللہ کا گھر اور وحدانیت بیان کرنے کے مراکز ہیں
وزیر آباد (ڈسٹرکٹ رپورٹر) ممتاز عالمِ دین و جنرل سیکرٹری پاکستان شریعت کونسل مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ مساجد اللہ کا گھر اور وحدانیت بیان کرنے کے مراکز ہیں۔ اس دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا، ان میں کسی نہ کسی پر کتاب یا صحیفے نازل فرمائے، اپنے دین کے کام کے لیے کسی بھی جگہ پر نبیوں کو اتارا جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا درس دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کام شروع کیا، یہ سلسلہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرمایا۔ آپ خاتم النبیینؐ ہیں، آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا گھر بنائیں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت میں گھر بنائے گا اور قیامت تک انسان کو قبر میں بھی اجر ملتا رہے گا۔
وہ پروفیسر نسیم اور ساتھیوں کی طرف سے اللہ جوایا کالونی میں مسجد فضہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر حافظ محمد عمران احمد، مولانا محمد یونس اختر، مولانا حافظ محمد عابد رفیق علوی، مولانا خضر حیات، صابر حسین بٹ، پروفیسر شیخ ثناء اللہ (پرنسپل مولانا ظفر علی خان کالج)، محمد فیاض، محمد جاوید مغل، سید تحسین علی، محمد مزمل، قاری محمد حماد انور نفیسی، بشارت علی سمیت متعدد افراد موجود تھے۔ تقریب کے اختتام پر فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا گیا اور دعائے خیر کی گئی۔
یونیورسٹی آف سیالکوٹ میں ’’فکر رمضان اور اسلام کا تصور زکوٰۃ‘‘ سیمینار
سیالکوٹ (بیورورپورٹ) یونیورسٹی آف سیالکوٹ میں چیئرمین بورڈ آف گورنرز فیصل منظور اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد ریحان یونس کی ہدایات پر شعبہ اسلامیات کے زیر اہتمام عبد الغنی آڈیٹوریم میں استقبالِ رمضان سیمینار منعقد ہوا جس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد مصطفٰی نے سر انجام دیے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیق الرحمٰن کی زیر صدارت منعقدہ سیمینار کا عنوان فکرِ رمضان المبارک اور اسلام کا تصورِ زکوٰۃ تھا۔
سیمینار میں شیخ الحدیث علامہ زاہد الراشدی سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل، شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے خصوصی شرکت و خطاب کیا جن کی آمد پر گلدستے پیش کر کے پرتپاک استقبال کیا گیا۔ شیخ الحدیث علامہ زاہد الراشدی نے ماہِ رمضان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے حقوق اللہ سمیت حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا، اور اسلام کے تصورِ زکوٰۃ کی سماجی ضروریات، حکمتیں، اثرات اور معیشت کے متعلق عالمی تحدیات پر سیر حاصل خطاب فرمایا۔
سیمینار میں یونیورسٹی آف سیالکوٹ کی مختلف فیکلٹیز کے ڈینز، ڈائریکٹرز، اساتذہ اور طلباء و طالبات نے بھرپور شرکت کی۔ سیمینار کے اختتام پر یونیورسٹی آف سیالکوٹ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیق الرحمٰن نے اہلیانِ اسلام کو یونیورسٹی آف سیالکوٹ کی جانب سے ماہِ رمضان کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ طلبا و طالبات کو تعلیم کی فراہمی کے ساتھ تربیت کی فراہمی اولین ترجیح ہے اور ماہِ رمضان کے دوران فکرِ رمضان کو اجاگر کرنے کے لیے روحانی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔
سیمینار کے اختتام پر شیخ الحدیث علامہ زاہد الراشدی کو یادگار اعزازی شیلڈ پیش کی گئی اور ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دینِ اسلام کی سربلندی سمیت قوم و ملک کی سلامتی کی دعا کی گئی۔
جامعہ گجرات کی لیکچر سیریز: ’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعہ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘
مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب نے طلبہ اور اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کو قرآن کریم اور سیرتِ امین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے زیور سے آراستہ و مزین کرنا ناگزیر ہے۔ اسی سے ان کی دینی، قومی، اعتقادی اور فکری اصلاح اور اخروی نجات وابستہ ہے۔ بعد ازاں انہوں نے یونیورسٹی میں قائم قائد اعظم لائبریری کے زیرانتظام کتب کی نمائش کا دورہ کیا اور اس کو سراہتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کو ایسے مواقع فراہم کرنا خوش آئند ہے۔ کیونکہ قرآن کریم اور سیرت کی طرف درست راہنمائی ہمارے اکابرین کی تصنیف کردہ کتب ہی کر سکتی ہیں۔ اس موقع پر پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ کے سیکرٹری مالیات حافظ شاہد الرحمان میر بھی ہمراہ تھے۔
حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے
گکھڑ منڈی (محمد گلشاد سلیمی) حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔ حافظِ قرآن ہونا ایسا اعزاز ہے جو دنیا و آخرت میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ قرآن کتابِ ہدایت بھی ہے، کتابِ شفا بھی اور کتابِ انقلاب بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سب پر خوشی منانے کا کہا ہے۔ والدین کی سب سے بڑی خوشی یہی ہے کہ بچہ حافظِ قرآن ہو جائے۔
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل علامہ زاہد الراشدی کا خطاب تفصیلات کے مطابق جامع مسجد شاہ جمال گکھڑ مدرسہ بستان الاسلام سے حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والے نو خوش نصیب حفاظ کرام کے اعزاز میں ۲۰ واں سالانہ جلسہ دستار فضیلت (۲۸ مارچ ۲۰۲۴ءکو) زیرصدارت مہتمم مدرسہ قاری محمود اختر عابد، علامہ خالد محمود سرفرازی کی میزبانی میں منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی علامہ زاہد الراشدی تھے۔ دستارِ فضیلت حاصل کرنے والوں میں معروف سیاسی، سماجی و کاروباری شخصیت حاجی ناصر محمود بٹ کے پوتے حافظ عبد اللہ فیصل سمیت نو طلباء شامل ہیں۔
تقریب میں شرکت کرنے والی شخصیات میں سابق چیئرمین وسیم یعقوب بٹ، حاجی ناصر محمود بٹ، زوہیب ناصر، فیصل ناصر، وقاص ناصر، ڈاکٹر احمد رضا، حافظ خالد محمود، عبد الرزاق خان، واجد محمد، گلشاد سلیمی، تجمل حسین، فرید چشتی، جبران لطیف قریشی، مولانا اظہر عثمان، محمد رمضان خان، قاری ایاز اختر، قاری اویس احمد نقشبندی، عبد القادر عثمان، حافظ شاہد میر اور بچوں کے عزیز و اقارب کے ساتھ طلباء اور عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر بچوں کو اسناد، شیلڈز، کتب اور نقد انعام سے نوازا گیا۔ مہتمم مدرسہ نے شکریہ کے ساتھ رقت آمیز دعائے خیر کروائی، تقریب کے اختتام پر شرکاء کی پرتکلف افطار ڈنر سے تواضع کی گئی۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ سے خطاب
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ روز (۳۰ مارچ) ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سودی نظام کے حوالے سے منعقدہ ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سودی نظام کا خاتمہ شرعی احکام اور دستور پاکستان دونوں کا ناگزیر تقاضہ ہے۔ مگر اس کے لیے ہمیں قوی معاملات میں بیرونی مداخلت کو رد کرنا ہو گا اور اس کے لیے قومی جدوجہد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے کہا تھا کہ پاکستان کا معاشی نظام مغربی اصولوں کی بجائے اسلامی احکام و تعلیمات کی روشنی میں تشکیل دیا جائے گا۔ مگر ہم ان کی وفات کے بعد اس کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کے دائرہ میں چلے گئے اور قرض در قرض کے لا متناہی سلسلہ میں خود کو اتنا مقروض کر لیا کہ اب ہم انہی کے رحم و کرم پر ہیں اور قومی خودمختاری سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ اس لیے آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قومی خودمختاری کی بحالی ہے جس کے لیے تمام طبقات کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم نے سودی نظام کو نحوست اور بے برکتی کا باعث قرار دیا ہے اور صدقات کے نظام کو جس کی قومی شکل ویلفیئر اسٹیٹ ہے رحمت و برکت کا ذریعہ بتایا ہے اور سود سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ سود سے رقم میں گنتی بڑھتی ہے جبکہ صدقہ و خیرات سے ویلیو بڑھتی ہے۔ اصل چیز گنتی نہیں ویلیو ہوتی ہے جس کا مشاہدہ ہم کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں کہ جو سونا ۱۹۷۰ء میں ایک سو ستر روپے تولہ خود میں نے گوجرانوالہ کے صرافہ بازار سے خریدا تھا اس کی قیمت آج دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ حالانکہ سونا وہی ایک تولہ ہے، ہم گنتی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ ہماری اصل ضرورت ویلیو اور برکت ہے۔ جو قرآن کریم کے احکام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو اپنانے سے حاصل ہو گی اور ہمیں بہرحال اس کی طرف واپس جانا ہو گا۔
مولانا زاہد الراشدی نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے اس پروگرام پر خوشی کا اظہار کیا کہ مروجہ قوانین کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لینے کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اسی پروگرام کے تحت سود کے مسئلہ پر اس نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری قومی ضرورت ہے کہ علماء کرام اور وکلاء مشترکہ طور پر ملک کے قانونی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانے کے لیے محنت کریں۔ ان کی مشترکہ محنت اور اجتماعی جدوجہد سے ہی ملک میں قانون کی عملداری اور شریعت کے نفاذ کا ماحول بنے گا۔
لوہیانوالہ گوجرانوالہ میں ’’مدرسہ جمیل الکامران‘‘ کا افتتاح
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شعبہ تجوید و قراءت کے صدر مدرس استاذ القراء مولانا قاری سعید احمد نے اپنے علاقہ لوہیانوالہ میں جناب حاجی سعید مغل اور حاجی کاشف مغل کے تعاون سے مدرسہ جمیل الکامران کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کیا ہے جس کی مسجد نور کی تعمیر شدہ عمارت کے وسیع ہال میں رمضان المبارک کی اکیسویں شب کو مولانا زاہد الراشدی کی امامت میں نماز عشاء ادا کر کے اس مسجد کا افتتاح کیا گیا۔ جبکہ مولانا قاری سعید احمد نے تراویح میں قرآن کریم مکمل کیا، اور عالمی شہرت یافتہ قاری وسیم اللہ امین کی تلاوتِ کلامِ پاک کے علاوہ اس موقع پر بہت سے بچوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی۔
مولانا زاہد الراشدی نے مسجد کی نئی عمارت کے افتتاح اور تراویح میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل پر مرکز کے منتظمین اور علاقہ بھر کے لوگوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کے حوالے سے اللہ پاک نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بڑے کام بیان فرمائے ہیں:
(۱) ’’لتقرءہٗ علی الناس‘‘ (الاسراء ۱۰۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر سنائیں (۲) ’’لتبین للناس ما انزل الیہم‘‘ (النحل ۴۴) لوگوں کو ان پر نازل کیے جانے والے قرآن کریم کا مفہوم و مطلب سمجھائیں (۳) ’’یعلمہم الکتاب‘‘ (البقرہ ۱۲۹) انہیں قرآن کریم کی تعلیم دیں اور (۴) ’’لتحکم بین الناس بما اراک اللہ‘‘ (النساء ۱۰۵) قرآن کریم کے احکامات کے مطابق لوگوں کے معاملات و مقدمات کے فیصلے کریں۔ ان میں سے دو کام تو ہمارے ہاں کم و بیش ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کریم حفظ و ناظرہ کی تعلیم اور تراویح میں قرآن پاک سنانے کا عمل موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ درس، وعظ اور خطبہ کی صورت میں ’’یعلمہم الکتاب‘‘ بعض مقامات پر ہو رہا ہے کہ قرآن کریم کے ترجمہ و تعلیم کی باقاعدہ کلاسیں چل رہی ہیں، مگر اکثر جگہ نہیں ہو رہا۔ مگر چوتھا کام کہ لوگوں کے تنازعات و معاملات کے فیصلے قرآن کریم کے مطابق کیے جائیں، یہ نہیں ہو رہا جو دینی حوالہ سے بہت بڑا معاشرتی خلاء ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مسجد میں قرآن کریم کے ترجمہ کی باقاعدہ کلاسیں ہونی چاہئیں اور مسجد کو علاقہ کے لوگوں کے مسائل و معاملات اور مقدمات و تنازعات کو سلجھانے کا کام کونسلنگ کے انداز میں کرنا چاہیے۔ اگر مساجد کے ائمہ و خطباء اور انتظامی کمیٹیاں اپنے علاقہ کے لوگوں کے باہمی تنازعات کو سلجھانے کا کام ثالثی اور کونسلنگ کے انداز میں شروع کر دیں تو اس سے لوگوں کو بڑا فائدہ ہو گا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت بھی زندہ ہو جائے گی۔