روزنامہ اسلام لاہور ۲۲ دسمبر ۲۰۱۰ء کی خبر کے مطابق فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے مسلم خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی کے بعد مساجد کے باہر سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر بھی پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ سڑکوں پر نماز کی ادائیگی قابل قبول نہیں اور مساجد بھر جانے کے بعد سڑکوں پر نماز کے لیے صف بندی فرانس کی سیکولر روایات کے خلاف ہے۔
فرانس دنیا میں سیکولر جمہوریت کا سب سے پہلا علمبردار ہے اور ۱۷۹۰ء کے انقلاب فرانس سے ہی مذہب اور ریاست میں قطع تعلقی کے عملی دور کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام پر فرانس میں آنے والے اس انقلاب کے بعد سے یہ طے کر لیا گیا تھا کہ آئندہ ریاستی معاملات اور سوسائٹی کے اجتماعی امور سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہو گا اور کسی پبلک مقام پر کسی مذہبی علامت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انقلاب فرانس کے بعد سے مغربی دنیا دنیا بھر میں مسلمانوں کو بھی اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مذہب کے اجتماعی اور معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جائیں اور مغرب کی طرح مذہب کو ذاتی اور انفرادی سطح تک محدود کر دیں۔ لیکن مسلمان نہ صرف اپنے ملکوں میں اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں بلکہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمان کمیونٹی بھی مذہب کے معاشرتی کردار اور اجتماعی پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں لگی ہوئی ہے جس نے مغربی دانشوروں کو پریشان کر دیا ہے اور اس پریشانی کا اظہار مختلف صورتوں میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ خود فرانس کی صورتحال یہ ہے کہ اسلام ملک کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے جو تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور مساجد میں مسلمانوں کی حاضری مسلسل بڑھنے کے ساتھ ساتھ دینی روابط اور مذہبی اقدار کے فروغ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مغربی دنیا میں چرچ کی ویرانی اور مسجد کی آبادی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ایک ایسا معروضی اظہار ہے جس سے مغرب کے کسی ملک میں بھی آنکھیں بند نہیں جا سکتیں اور خاص طور پر سیکولر جمہوریت کے اس ’’امام‘‘ ملک میں تو اسلام کا یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لیکن کیا مساجد سے باہر نماز کے لیے صف بندی کو ممنوع قرار دینے سے اسلام کا راستہ روکا جا سکے گا اور نمازیوں کی تعداد کو کم کیا جا سکے گا؟ یہ مغربی دانشوروں کی خام خیالی ہے اور اس کا مشاہدہ امریکہ اور برطانیہ کی مساجد میں بخوبی کیا جا سکتا ہے جہاں مساجد سے باہر نماز کے لیے صف بندی کی قانوناً اجازت نہیں ہے مگر مسلمانوں نے اس کا یہ حل نکال رکھا ہے کہ ایک ہی مسجد میں جمعہ کی نماز باری باری تین تین چار چار مرتبہ ادا کر کے سب مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے اور شاید شاعر نے اسی حوالہ سے کہا کہ:
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے