ہفت روزہ ’’پاکستان پوسٹ‘‘ (ہیوسٹن، امریکہ) نے ۱۴ جولائی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں یہ خبر شائع کی ہے کہ عالمی ادارہ ’’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘‘ نے ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ تین سال کے دوران کرپشن میں چار سو گنا اضافہ ہوا ہے اور اس سے قومی خزانہ کو تین ہزار ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے حکومتی اداروں میں کرپشن اپنے عروج پر ہے اور وزراء اور اعلیٰ سیاسی شخصیات کی کرپشن کی کہانیاں زبان زد عوام ہیں۔
کرپشن ہمیشہ سے پاکستان کا مسئلہ رہا ہے اور ملک و قوم کو درپیش بیشتر مسائل کا بنیادی سبب یہی کرپشن ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محترم جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چند ماہ قبل ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ’’کرپشن‘‘ ہے اور اس کے ساتھ انہوں نے کہا تھا کہ کرپشن سے نجات اور گڈ گورننس کے قیام کے لیے ہمیں حضرت عمر فاروق ؓ کی پیروی کرنا ہو گی، اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ فوج اور سول بیوروکریسی سمیت قومی زندگی کا کوئی بھی شعبہ کرپشن سے پاک نہیں ہے۔
قومی خود مختاری کو درپیش چیلنج، ملکی سرحدات کی پامالی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خوفناک لوڈشیڈنگ سمیت کسی بھی قومی مسئلہ اور بحران کا تجزیہ کریں تو اس کے پیچھے چند افراد کی کرپشن، مفاد پرستی اور بدعنوانی کارفرما دکھائی دے گی اور اس طرح نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر ہمیں اپنے ملک میں کرپشن ہی کی حکمرانی اور بالا دستی کا سامنا ہے جو ’’الناس علی دین ملوکہم‘‘ کے مصداق گزشتہ تین برسوں میں چار سو گنا تک بڑھ گئی ہے اور یہ دیمک قومی معیشت کے ڈھانچے کو مسلسل چاٹ رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس عذاب اور بحران میں نجات کا واحد راستہ وہی ہے جو چیف جسٹس نے تجویز کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے نقش قدم پر چلا جائے۔ ہمارا دستور بھی یہی کہتا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری قائم کی جائے اور ملکی رائے عامہ بھی کئی بار یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں لایا جائے، اس کے سوا ہمارے کسی مسئلہ کے حل اور قومی زندگی میں اصلاح کا دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔