معروف مفسر و مؤرخ حافظ ابن کثیرؒ اور دیگر مفسرین نے سورۃ التوبۃ کی آیات ۱۰۷ تا ۱۱۰ کی تشریح میں مختلف روایات کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار کے قبیلہ بن خزرج کا ایک شخص ابو عامر جو پہلے سے عیسائی ہوگیا تھا اور مسیحیت کا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کثرت عبادت کی وجہ سے راہب کہلاتا تھا، وہ بھی جناب نبی اکرمؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ علاقہ میں اس کا اپنا ایک حلقہ قائم ہو چکا تھا اور اس کی عقیدت کا ماحول پایا جاتا تھا۔ جناب رسول اکرمؐ نے اسے اسلام کی دعوت دی اور قرآن کریم سنایا تو اس نے نہ صرف خود قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنے قبیلہ کے لوگوں کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکتا تھا، حتٰی کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو اسلام کی مخالفت کے لیے وقف کر دیا۔
ابوعامر راہب قریش کو احد کی جنگ کے لیے اکسانے اور ان کے لیے مختلف عرب قبائل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا، یہاں تک کہ جب قریش کا لشکر احد پہاڑ کے دامن میں مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوا تو وہ ان کے ساتھ تھا، اس نے اس موقع پر اپنے قبیلہ کو اسلام سے منحرف کرنے کے لیے بہت زور لگایا مگر انہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ مشرکین کے ساتھ اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف شریک ہوا اور جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ اس نے میدان جنگ میں جگہ جگہ گڑھے کھدوا کر انہیں ڈھانپ دیا جن میں ایک گڑھے میں گر کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے۔ احد میں مشرکین نے مسلمانوں کو نقصان تو بہت پہنچایا مگر بالآخر انہیں میدان جنگ چھوڑ کر جانا پڑا جس سے دل برداشتہ ہو کر راہب ابو عامر روم چلا گیا اور قیصر روم سے پناہ اور امداد کی درخواست کی۔
روم کے بادشاہ نے اسے پناہ دی اور عزت افزائی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف مدد کی امید بھی دلائی جس پر اس نے مدینہ منورہ میں اپنے ساتھیوں کو پیغام بھجوایا کہ وہ روم کے بادشاہ سے مدد کا وعدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے اس لیے وہ بھی اس کے لیے تیاری کریں اور ایک ایسا مرکز تعمیر کریں جو ان کے لیے خفیہ سرگرمیوں کا اڈہ بن سکے، اس میں اسلحہ جمع کریں اور اردگرد کے ساتھیوں کو تیار کرنے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ اس کے ساتھیوں نے، جن کی تعداد حافظ ابن کثیرؒ نے بارہ لکھی ہے اور ان کے نام بھی درج کیے ہیں، وہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور مدینہ منورہ کے ان منافقین میں سے تھے جن کی حرکتوں کا قرآن کریم میں بار بار تذکرہ کیا گیا ہے، انہوں نے قبا کے علاقہ میں مسجد کے نام سے ایک عمارت تعمیر کی۔ جناب نبی اکرمؐ اس وقت غزوہ تبوک کے لیے روانگی کی تیاری کر رہے تھے، ان لوگوں نے عمارت مکمل کر کے آنحضرتؐ سے درخواست کی کہ وہ کسی وقت وہاں تشریف لا کر نماز پڑھا دیں تاکہ برکت کے ساتھ مسجد کی سرگرمیوں کا آغاز ہو جائے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مسجد علاقہ کے غریب، نادار، بیمار اور معذور لوگوں کی سہولت کے لیے بنائی گئی ہے تاکہ وہ سردی، بارش اور رات کی تاریکی میں وہیں نماز پڑھ لیا کریں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ کہ اس وقت تو میں سفر کی تیاری میں ہوں، واپسی پر ان کے ہاں آؤں گا اور ان کی تعمیر کردہ مسجد میں نماز پڑھا دوں گا۔ اس کے بعد آپؐ تبوک کے سفر پر روانہ ہو گئے جو رومیوں کے حملہ کی اطلاع پر ان سے شام کی سرحد پر مقابلہ کے ارادہ سے تھا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ تبوک میں قریباً ایک ماہ قیام کر کے رومیوں کے لشکر کا انتظار کرتے رہے اور یہ دیکھ کر کہ رومیوں کو مقابلہ میں آنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا، آنحضرتؐ مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔ ابھی راستہ میں مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر ’’ذی اروان‘‘ پہنچے تھے کہ ابو عامر راہب کے ساتھیوں نے وہاں پہنچ کر حضورؐ کو اپنی تعمیر کردہ مسجد میں تشریف آوری کا وعدہ یاد کرایا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی کی طرف سے وحی نازل ہوئی جس میں آپؐ کو اس عمارت میں جانے سے منع کر دیا گیا اور اسے ’’مسجد ضرار‘‘ کا نام دے کر فرمایا گیا کہ یہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے اور دین کے دشمنوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور اسے ’’گھات‘‘ قرار دیا گیا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’’وارصادًا لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل‘‘ جو شخص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتا رہا ہے یہ اس کا مورچہ ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہی ابوعامر راہب ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف وہاں جانے سے انکار کر دیا بلکہ دو انصاری صحابیوں حضرت مالک بن دخشم اور حضرت معن بن عدی رضی اللہ عنہما کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ وہاں جا کر عمارت کو گرا کر آگ لگا دیں اور وہاں موجود لوگوں کو بھگا دیں، انہوں نے ایسا ہی کیا اور یہ مرکز نذر آتش ہوگیا۔
اس واقعہ میں ہمارے لیے سبق کی بات یہ ہے کہ اس دور کے ایک خفیہ گروپ کی سرگرمیوں کی اطلاع کے لیے، جسے آج کی اصطلاح میں ’’این جی او‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے، اللہ تعالٰی کی طرف سے وحی کی سہولت موجود تھی جس کے باعث اس مرکز کے شر سے مسلمان محفوظ رہے ورنہ حضورؐ نے تو وہاں تشریف لے جانے کا وعدہ کر لیا تھا۔ البتہ آج ایسے گروپوں کی نشاندہی اور ان کے شر سے بچنے کے لیے ان کی مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی بنیاد پر ہی ان کا تعین کرنا ہوگا، اور ان کی منفی سرگرمیوں اور مراکز کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری قرار پائے گی۔ اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ابوعامر راہب کے حقیقی بیٹے حضرت حنظلہؓ نے احد کی جنگ میں شہادت پائی اور وہ غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے کہ انہیں شہادت کے بعد فرشتوں نے غسل دیا تھا۔