ندوۃ العلماء لکھنؤ کے آرگن پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘ نے ۲۵ فروری ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ
’’بنگلہ دیش کے اسلامی بینک کے وائس چیئرمین نے کہا ہے کہ اسلامی بینک بنگلہ دیش نے بلا سود بینکاری کی بنیاد پر اپنی خدمات فراہم کر کے گزشتہ برس ۲۵ فیصد منافع کمایا ہے، اور حکومت نے اس کارکردگی کے پیش نظر بنگلہ دیش کے تیرہ بینکوں میں سے اسلامی بینک کو وی آئی پی بینک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ہمارے کام کی بنیاد رضائے الٰہی، آخرت کی فکر اور خوفِ خدا کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ مسلسل تین سال کی جدوجہد کے بعد ۳۵ سرمایہ کاروں کے تعاون سے حکومت سے ۵۰ کروڑ ٹکا کے منظور شدہ سرمایہ سے کام شروع کیا۔ اس وقت تین شاخیں تھیں، اب ان کی تعداد ۸۳ تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
ہمارے ہاں ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ سود کے بغیر تجارت اور بینکاری کا نظام چلانا ممکن نہیں ہے، اور اسی بنا پر سودی قوانین کو غیر شرعی قرار دینے کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کے بجائے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے ’’فریز‘‘ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ قطعی طور پر خلافِ واقعہ بات ہے، خود پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بلا سود بینکاری پر ایک جامع رپورٹ مرتب کی تھی جس کی بنیاد پر سابق صدر جناب غلام اسحاق خان نے اس دور میں جبکہ وہ وزیر خزانہ تھے، اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا تھا کہ ہمارے اگلے سال کا بجٹ غیر سودی ہو گا۔ لیکن عملاً ایسا نہ ہو سکا اور بجٹ کو غیر سودی کرنے کے بجائے بلا سود بینکاری کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جامع رپورٹ کو ’’سرکاری استعمال کے لیے خاص‘‘ کر کے اس کی عمومی اشاعت روک دی گئی۔
اس کے علاوہ دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں سود کے بجائے مضاربت کے شرعی اصولوں کے مطابق بینکاری کے تجربات جاری ہیں اور درجنوں بینک اس بنیاد پر کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ جن میں تازہ ترین شہادت آپ اسلامی بینک بنگلہ دیش کے حوالے سے سطور بالا میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس لیے اصل بات یہ نہیں کہ سود کے بغیر بینکاری ہو سکتی ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ ہے کہ عالمی استعماری قوتوں کی معاشی اجارہ داری اور دنیا بھر کی تجارت پر ان کی بالادستی کی بنیاد سود پر ہے، جس کے بغیر وہ تجارت و معیشت پر اپنی گرفت قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے وہ کسی قیمت پر یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ دنیا کے کسی خطہ بالخصوص عالم اسلام کے کسی ملک میں سود کے شکنجے سے آزاد تجارتی اور بینکاری نظام وجود میں آئے، اور اسی مقصد کے لیے استعماری قوتوں کے گماشتے ’’سود کے بغیر تجارت اور بینکاری ممکن نہیں ہے‘‘ کا راگ آنکھیں بند کر کے الاپے جا رہے ہیں۔